کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 21
ہیں اور جس کی پابندی کی تلقین وہ خود بھی کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب ’’اسلامی قانون کی تدوین‘‘ میں ’’کتاب و سنت کی تعبیر میں سلف صالحین کی پیروی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’تدوین قانون کے کام کے ہر مرحلہ میں یہ حقیقت پیش نظر رکھی جائے کہ مسلمان کتاب و سنت کی جن تعبیروں پر اعتماد رکھتے ہیں، انہی تعبیروں پر مبنی ضابطہ و قانون بنایا جائے۔ اگر اپنی طرف سے نئی تعبیریں محض شوق اجتہاد میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کو لوگ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے اور اگر غلط طریقوں سے ان کو لوگوں پر لادنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مضر بلکہ مہلک ہوں گے‘‘ (آگے چل کر مزید لکھتے ہیں) ’’سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ کتاب و سنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کی پیروی کی جائے۔‘‘ (اسلامی قانون کی تدوین، ص 135-137) اس تفصیل سے واضح ہے کہ مولانا اصلاحی کا نظریہ رجم ایک بڑی لغزش اور سخت گمراہی ہے، کیونکہ یہ انکار حدیث کو بھی مستلزم ہے، سلفی تعبیر کے بھی خلاف ہے، نیز شریعت سازی کا ارتکاب اور اجماع صحابہ، اجماع امت اور اجماع ائمہ اربعہ کا انکار ہے۔ اس کی مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، راقم کی کتاب ’’حد رجم کی شرعی حیثیت اور شبہات و مغالطات کا جائزہ۔‘‘ یہ کتاب 1981ء کی چھپی ہوئی ہے، اس میں مدلل طریقے سے مولانا اصلاحی کے نظریہ رجم کا ابطال کیا گیا ہے اور الحمدللہ ادعائے علم اور پندار ہمہ دانی کے باوجود مکتب فراہی کے اہل قلم کی طرف سے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا جا سکا۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا اصلاحی اور ان کے ہم مکتب حضرات کے پاس سوائے ہٹ دھرمی کے کوئی دلیل نہیں ہے۔ 2۔ مولانا اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ: ’’جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں، اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہیں۔ بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ اس نیکی کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی برائی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔ (مقدمہ، تدبر قرآن، ص ط۔ طبع اول، ستمبر 1967ء) بالکل اسی طرح فکری کجی اور گمراہی کا معاملہ ہے۔ جب انسان کے فکر و نظر کے زاویے میں کسی ایک مقام پر کجی آ جائے، تو پھر اس کا دائرہ بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جاتا ہے، حتی کہ بعض دفعہ اس کا رخ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک گاڑی کا کانٹا بدل جائے تو پھر وہ اسی بدلے ہوئے کانٹے پر تیزی سے رواں دواں رہتی ہے تاآنکہ دوبارہ اس کا کانٹا بدل کر اسے سیدھے راستے پر گامزن نہ کر دیا جائے۔ فکر فراہی کی بنیاد میں ایک بہت بڑی کجی یہ ہے کہ اس