کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 209
چونکہ ’’آمین بالجہر‘‘ پر بکثرت احادیث صحیحہ صریحہ شاہد ہیں لہٰذا اس کے ثابت ہونے کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں، پس آمین بالجہر کے دلائل کے تذکرہ سے بخوف طوالت ہم یہاں گریز کرتے ہیں، البتہ ’’آمین بالسر‘‘ کے قائلین کے دلائل کا مختصراً جائزہ ذیل میں پیش کیا جائے گا تاکہ صورت حال پوری طرح واضح ہو سکے۔ عموماً حنفیہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ آمین بالسر کے قائل ہیں۔ پورے ذخیرہ احادیث میں موجود ان کی اکلوتی دلیل شعبة عن سلمة بن كهيل عن حجر ابي العنبس عن علقمة بن وائل عن أبيه کے طریق سے آنے والی وہ مرفوع حدیث ہے جسے امام احمد و ابو یعلی نے اپنی مسانید میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’المستدرک‘‘[1]میں یوں روایت کی ہے: ’’إن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم لما بلغ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قال آمين و أخفي بها صوته‘‘ امام حاکم رحمہ اللہ کی روایت میں ’’خفض صوته‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں، لیکن اکثر محدثین بشمول امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کی متفقہ رائے ہے کہ شعبہ کو اس حدیث کے الفاظ ’’خفض صوته‘‘ کے بارے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ اصلاً یہ الفاظ یوں تھے: ’’مد صوته‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی ’’جامع‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس بارے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ اصح ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے تین مقامات پر بھی خطا کی ہے۔‘‘ [2] امام ترمذی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے امام ابو زرعہ رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اس بارے میں سفیان کی حدیث اصح ہے۔‘‘ [3] صاحب ’’التنقیح‘‘ نے شعبہ رحمہ اللہ کی اس حدیث (یعنی آمین بالسر کی روایت) پر طعن کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’شعبہ رحمہ اللہ سے مروی یہ حدیث، انہی سے مروی دوسری حدیث کے خلاف وارد ہے کہ جس کی تخریج امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن [4]‘‘ میں بطريق أبي الوليد الطيالسي ثنا شعبة عن سلمة بن كهيل ’’سمعت حجرا أبا عنبس يحدث عن وائل الحضرمي‘‘ یوں فرمائی ہے: ’’أنهٗ صَلي خَلف
[1] المستدرک للإمام حاکم: 232 [2] جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی 1/209 [3] نفس مصدر 1/212 [4] 2/57