کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 20
دی گئی ہے۔
4۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی ہے لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفائے راشدین کے ہاتھوں ہوا، اس پہلو سے خلفائے راشدین کا دور گویا عہد رسالت ہی کا ایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لئے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں وہ ہمارے لئے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لئے ان سے انحراف جائز نہیں ہے۔ (ماہنامہ ترجمان القرآن مذکور)
بلکہ مولانا اصلاحی صاحب اس کے بھی قائل ہیں کہ جس مسئلے میں ائمہ اربعہ بھی متفق ہوں تو ان کا یہ اتفاق بھی اجماع امت کے مترادف اور دین میں حجت ہے۔ چنانچہ موصوف ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’ایک انطباق تو وہ ہے جس پر خلفائے راشدین اپنے دور کے اہل علم و تقویٰ کے مشورے کے بعد متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اسلام میں اجماع کی بہترین قسم ہے اور یہ بجائے خود ایک شرعی حجت ہے۔ اسی طرح ایک انطباق وہ ہے جس پر ائمہ اربعہ متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اگرچہ درجے میں پہلی قسم کے اجماع کے برابر نہیں ہے، تاہم چونکہ یہ امت من حیث الامت ان ائمہ پر متفق ہو گئی ہے، اس وجہ سے ان ائمہ کے کسی اجماع کو محض اس دلیل کی بنا پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ معصوم نہیں تھے۔ یہ معصوم تو بےشک نہیں تھے لیکن ان کے معصوم نہ ہونے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ کسی امر پر ان کا اتفاق دین میں حجت نہ بن سکے۔‘‘ (عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ، ص 58، طبع فیصل آباد)
اور یہ ظاہر ہے کہ رجم کی وہ زیر بحث حد، جس کا انکار مولانا اصلاحی صاحب نے فرمایا ہے، اجماع صحابہ کے علاوہ، ائمہ اربعہ سمیت تمام فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود اصلاحی صاحب کے مذکورہ موقف کے مطابق حد رجم کا انکار کتنی بڑی گمراہی ہے۔
تیسرے، اصلاحی صاحب کے نظریہ رجم میں رجم کو، جو ایک شرعی حد ہے یعنی اللہ و رسول کی مقررہ حد، جس میں کسی بھی شخص کو کمی بیشی یا ترمیم و تبدیلی کا حق نہیں، شرعی حدود سے خارج کر کے تعزیری سزا بنا دیا گیا جو صرف حاکم اور جج کی صوابدید پر منحصر ہے۔
چوتھے، رجم کی یہ تعزیری سزا بھی ان کے خیال کے مطابق صرف زانی کو (چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) نہیں دی جائے گی بلکہ پیشہ ور زانیوں اور غنڈوں کو دی جائے گی یا بہ الفاظ دیگر یہ ’’تعزیری رجم‘‘ گویا زنا کی سزا نہیں، بلکہ غنڈہ گردی کی سزا ہے۔ اور موصوف نے یہ ’’استنباط‘‘ یا ’’اجتہاد‘‘ آیت محاربہ سے کیا ہے جس میں رجم کی سزا کا کوئی ذکر ہے نہ مفسرین امت میں سے کسی نے یہ استنباط کیا ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ یہ اصلاحی صاحب کا ایک تحکمانہ فعل، ایک گونہ شریعت سازی اور اس سلفی تعبیر کے خلاف ہے، جس کے پابند علمائے سلف و خلف چلے آ رہے