کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 19
’’صحیح بخاری و صحیح مسلم، ان دونوں کتابوں کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی متصل مرفوع روایات ہیں، وہ سب یقینی طور پر صحیح ہیں اور وہ اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ نیز جو ان دونوں کتابوں کی اہمیت کو گھٹاتا ہے، وہ بدعتی ہے اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کا اتباع کرنے والا ہے۔‘‘
اجماع امت سے انحراف اور احادیث صحیحہ سے انکار کی ایک واضح مثال مولانا اصلاحی کا نظریہ رجم ہے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی مزعومہ تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں کیا ہے اور جس پر انہیں ابھی تک اصرار ہے۔
وہ نظریہ یہ ہے کہ اسلام میں زنا کی سزا ایک ہے اور وہ سو کوڑے ہے۔ چاہے زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ ان کے نزدیک رجم کی سزا صرف زنا کے ارتکاب پر نہیں دی جا سکتی، البتہ اس زانی کو بطور تعزیر یہ سزا دی جا سکتی ہے جو معاشرے کی عزت و ناموس کے لئے خطرہ بن جائے، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنا لے، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پر ڈاکہ ڈالے اور کھلم کھلا زنا بالجبر کا مرتکب ہو۔ (تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ 4/504-505)
گویا یہ اصلاحی صاحب نے ’’اجتہاد‘‘ فرمایا ہے کہ رجم غنڈہ گردی کی سزا ہے، زنا کی سزا نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا اصلاحی صاحب کا یہ نظریہ رجم یا ’’اجتہاد‘‘ یا ’’تقتیل‘‘ کی من مانی تفسیر، شرعی نقطہ نظر سے نہایت خطرناک رجحانات کی حامل ہے۔ اس میں:
ایک تو رجم کی ان احادیث کو قطعاً نظر انداز کر دیا گیا ہے جو مشہور، متفق علیہ اور متواتر ہیں، کیونکہ وہ تقریباً تین درجن صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ جس سے صریحاً انکار حدیث کی پرزور تائید ہوتی ہے۔
دوسرے، اجماع صحابہ اور اجماع امت سے سخت بے اعتنائی ہے۔ حالانکہ یہ اجماع صحابہ خود مولانا اصلاحی صاحب کی صراحت کے مطابق دین میں حجت اور سنت ہے جس سے انحراف کی اجازت ان کے نزدیک نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مفصل مضمون کے آخر میں، جو ’’سنت خلفائے راشدین‘‘ کے عنوان سے فروری 1956ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور میں چھپا ہے، لکھتے ہیں:
’’اب میں یہ بتاؤں گا کہ میں خلفائے راشدین کے اس طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے – جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفائے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشا ہے اور اسی حیثیت سے مسلمانوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت اور وصیت فرمائی ہے۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اجماع ہمارے یہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفائے راشدین کے عہد میں ملتی ہیں۔
3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتداء سے خلفائے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت