کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 18
[وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا](النساء 115) اور جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور کے راستے کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
اس آیت پر راقم نے اپنی مختصر تفسیر میں حسب ذیل حاشیہ تحریر کیا ہے:
’’ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مؤمنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر اس آیت میں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مؤمنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مؤمنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے رسول کی مخالفت اور غیر سبیل المؤمنین کا اتباع، دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المؤمنین سے مراد اجماع امت لیا ہے یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق یا کسی مسئلہ پر صحابہ کرام کا اتفاق۔ یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ کے بعد کسی مسئلہ میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں ان کا انکار بھی، صحابہ کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے۔ اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے ’’اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘ (صحیح ترمذی للالبانی، 2/رقم 1759) (’’تفسیر احسن البیان‘‘ بر حاشیہ قرآن مجید مترجم، مکتبہ دارالسلام۔ ریاض لاہور۔ ص 125)
اسی طرح احادیث صحیحہ حتی کہ صحیح بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث تک کے انکار کا جو راستہ ان صاحب نے کھولا ہے، وہ بھی نہایت خطرناک ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں فرمایا ہے:
أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون علي أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع و أنهما متواتران إلي مصنفيهما و أنه كل من يهون أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المؤمنين (حجۃ اللہ البالغۃ، ص 134)