کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 172
الْقِيَامَةِ‘‘ سب احادیث متواتر ہیں۔‘‘ [1]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں مندرجہ ذیل احادیث کو متواتر قرار دیا ہے:
’’مَنْ بَنَي لِله مَسْجِداً‘‘[2] ’’المسح علي الخفين‘‘[3] ’’رفع اليدين في الصلاة، الشفاعة والحوض، رؤية اللّٰه في الآخرة‘‘[4] ’’الأَئِمَة مِنْ قُرِيْش‘‘[5]، [6]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ محدثین اور فقہاء کے نزدیک چند متواتر احادیث کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سجود السهو، وجوب الشفعة، حمل العاقلة العقل، رجم الزاني المحصن، احاديث الرؤية و عذاب القبر، الحوض والشفاعة وغیرہ۔‘‘ (مجموع فتاویٰ 18/51)
ان کے علاوہ بعض دوسری متواتر احادیث کی مثالوں میں ایک حدیث ’’لَا صَلَوٰة إِلَّا بِأُم الْقُرْآن‘‘ بھی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے متواتر قرار دیا ہے۔ یہ حدیث تیرہ سے زیادہ صحابیوں سے مروی ہے۔ [7]اسی طرح احادیث شفاعت و حوض جو کہ چالیس سے زیادہ صحابیوں سے مروی ہے، کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’ان کا مجموعہ تواتر کی حد تک کو پہنچتا ہے۔ [8] اسی طرح معاطن الإبل میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی احادیث کے متعلق امام ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں: ’’إنه نقل تواتر يوجب العلم‘‘[9] ’’إتخاذ القبور مساجد‘‘ (قبروں کو سجدہ گاہ بنا لینے) کی نہی سے متعلق احادیث کو بھی امام
[1] تدریب الراوی 1/179-180
[2] نظم المتناثرہ للکتانی، ص: 12، 53، ابن حجر عسقلانی و دراسۃ مصنفاتہ 1/350
[3] علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ابو القاسم ابن مندہ رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ’’المستخرج‘‘ میں ساٹھ سے زیادہ صحابیوں سے مروی بتایا ہے لیکن ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر رحمہا اللہ کے نزدیک بطریق حسن بصری اس کا ستر صحابیوں سے مروی ہونا منقول ہے۔ بعض حفاظ نے اس کے رواۃ کو اسی سے زیادہ صحابیوں تک جمع کیا ہے۔‘‘ (فتح المغیث للسخاوی 4/17) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’منهم روي المسح علي الخفين عن النبي صلي الله عليه وسلم نحو أربعين من الصحابة واستفاض و تواتر‘‘ اور امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ليس في قلبي من المسح شيء، فيه أربعون حديثا عن أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم ما رفعوا إلي النبي صلي الله عليه وسلم وما وقفوا‘‘ (التقیید والایضاح، ص: 229-230، فتح المغیث للسخاوی 4/17، فتح المغیث للعراقی، ص: 322، التلخیص الحبیر لابن حجر 1/158، فتح الباری 1/306، المجموع 1/461، المغنی 1/281، نصب الرایہ للزیلعی 1/162
[4] فتح الباری لابن حجر عسقلانی 13/434، نظم المتناثرۃ، ص: 153-154، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بیس سے زیادہ طرق اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’حادی الأرواح‘‘ میں تیس سے زیادہ طرق ذکر کئے ہیں۔
[5] فتح الباری 7/32، نظم المتناثرۃ 103، حافظ ابن حجر عسقلانی کا قول ہے کہ میں نے تقریباً چالیس صحابیوں سے مروی اس حدیث کے طرق جمع کئے ہیں۔
[6] فتح الباری: 1/203
[7] نظم المتناثرۃ، ص: 62، کشف النقاب 4/320، تحقیق الکلام للمحدث المبارکفوری
[8] الشفاء للقاضی عیاض: 1/129-130، شرح صحیح مسلم: 3/35، 5/53، فتح الباری: 11/426، 467، 468، 469، مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: 4/425، 18/16، 69، علوم الحدیث لابن تیمیہ: ص 68-69، التقیید والایضاح للعراقی: ص 232، نظم المتناثرۃ: ص 149-153
[9] المحلی لابن حزم: 4/25