کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 17
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تقریظ
بقلم: جناب مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب، حفظہ اللہ تعالیٰ
(سابق مدیر اعلی ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور و مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان)
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اپنے دور کے ان چند سربرآوردہ، اہل علم و اہل قلم میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذہانت و فطانت سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے۔ لیکن ذہانت کی یہ فراوانی ان کے زیغ و ضلال کا باعث اور [وَأَضَلَّهُ اللّٰه عَلَىٰ عِلْمٍ](الجاثیہ، 23) کا مصداق ثابت ہوئی ؎
اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی
سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہم کو دیکھ لیجئے، ان کا شمار بھی ذہین و فطین لوگوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ان حضرات نے مسلمہ اسلامی عقائد کا جس طرح حلیہ مسخ کیا ہے، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اور یہ حضرات اپنے اپنے دائروں میں جس طرح گمراہی کے امام و پیشوا بنے، وہ بھی کوئی مخفی راز نہیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ذہانت و فطانت اور علم و فن میں اونچے مقام پر فائز ہونا، یہ کوئی خاص اعزاز نہیں۔ بہت سے ائمہ کفر و ضلال بھی ان چیزوں سے بہرہ ور رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے گو دنیا میں شہرت و ناموری ضرور حاصل کر لی ہو، مگر عنداللہ ان کا کوئی مقام نہیں ہو گا بلکہ وہ اللہ کے ہاں مجرم ہی نہیں، اکابر مجرمین میں سے ہوں گے، جن پر ان کی اپنی ہی گمراہی کا بوجھ نہیں ہو گا، ان ہزاروں اور لاکھوں افراد کے گناہوں کی بھی ذمے داری ہو گی جو ان کے افکار و آراء سے گمراہ ہوئے ہوں گے۔
مولانا اصلاحی صاحب بھی ’’تدبر قرآن‘‘ کے مصنف ہونے کے اعتبار سے قرآن کے ایک ’’مفسر‘‘ کے طور پر بھی مشہور ہیں، اپنے دروس حدیث کی بنا پر ان کے تلامذہ ان کو ایک ’’محدث‘‘ بھی شمار کرتے ہوں گے، بعض کلامی خدمات کی بنا پر شاید ایک ’’متکلم‘‘ اور فکر فراہی کے ایک ’’عظیم مفکر‘‘ بھی سمجھے جاتے ہوں گے۔ لیکن ’’إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ‘‘ کے اعتبار سے اندیشہ ہے کہ عنداللہ ان کا شمار بھی دعاۃ ضلال ہی میں ہو۔ کیونکہ عمر کے اس آخری دور میں ان کے زبان و قلم سے بعض ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں جو صریح گمراہی پر مبنی ہیں بلکہ اجماع امت سے انحراف کی وجہ سے ان پر کفر تک کا اطلاق ممکن ہے۔