کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 15
پیدا ہوتے ہیں، پھر خبر واحد کے مفید بالعلم ہونے کی بحث اٹھائی ہے، اور ضروری مسائل کو مفتح کیا ہے، اس مسئلہ میں تقلید جامد اور گروہی و مسلکی عصبیت کے اثرات بھی مصنف سے مخفی نہیں، علمی مسائل کی آڑ میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ تعصب کو تسکین دی جاتی ہے! مصنف محترم نے ساتویں باب میں وضع حدیث کے فتنہ پر روشنی ڈالی ہے، واضح ہو کہ اس فتنہ کی نشاندہی و نقاب کشائی خود محدثین کرام نے کی ہے، لیکن معترضین اسے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ ان کی دریافت ہے، مجھے بعض ایسے حضرات سے سابقہ رہا ہے جو اس قسم کے وہم میں گرفتار تھے، انہیں یہ سوچنے کی توفیق نہ ہو سکی کہ وضع حدیث کی نشاندہی سے محدثین کرام کی امانت و تقویٰ اور بصیرت و حمیت کا اندازہ ہوتا ہے، عربی کا مقولہ ’’حبك الشيء يُعمي و يُصم‘‘ ایسے ہی لوگوں پر صادق آتا ہے! زیر نظر باب میں مصنف نے ان طبقات و طوائف پر روشنی ڈالی ہے جو وضع حدیث میں ملوث تھے، اسی طرح ہر ایک کے یہاں اس کے محرکات و مقاصد کو بھی واضح کیا ہے، اور فکر میں زیغ و ضلال کے سرچشمہ کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، واضعین حدیث میں ایک گروہ متعصبین کا بتایا ہے، اور تعصب کی نوعیت کے لحاظ سے اسے کئی قسموں میں منقسم کیا ہے، یہ موضوع توجہ کا ہے، فن سے ناواقف حضرات اس مقام پر اکثر دھوکہ کھاتے ہیں، اور لاعلمی کے نتیجہ میں محدثین کرام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں! ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ آٹھواں، نواں اور دسواں باب اصلاحی صاحب کے افکار و خیالات پر نقد و تمحیص سے متعلق ہے، ان میں جو مفید مباحث آئے ہیں انہیں قارئین کرام کتاب میں پڑھ کر رائے قائم کریں گے، لیکن بعض عناوین کی جانب اشارہ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں: آٹھویں باب میں حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لئے اصلاحی صاحب کی پیش کردہ چھ کسوٹیوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے، اس میں کشف و الہام، انوار القلوب اور ذوق سے احادیث نبوی کے ثبوت اور ’’عقل کلی‘‘ وغیرہ نقاط زیر بحث آئے ہیں، اسی طرح مصنف نے یہ سوال بھی قائم کیا ہے کہ: ’’کیا صحت حدیث پرکھنے کے لئے ’’قرآن کریم‘‘ کوئی معیار ہے؟‘‘ نویں باب میں فاضل مصنف نے تدبر حدیث سے متعلق اصلاحی صاحب کے پانچ بنیادی اصولوں کا جائزہ لیا ہے، اس باب میں تدبر حدیث کا موضوع زیر بحث آیا ہے، اس لئے بہت سے نفیس مباحث پر گفتگو ہوئی ہے، اسی سے متعلق عقل و فہم کا موضوع بھی ہے، جس کے دائرہ کو ’’درایت‘‘ کے نام پر کہیں اور پہنچا دیا جاتا ہے، یہ بات کہہ کر کہ ’’دین اور عقل و فطرت میں منافات نہیں ہے‘‘ جو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے اس سے کبھی کبھی اسلام کی بنیاد ہی ضرب لگ جاتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے کہ انہوں نے عقل و نقل میں تعارض کے موضوع پر ایک بے حد جامع و مفصل کتاب پیش کر دی، اگر ہمارے معترضین عربی جانتے تو اس سے بہت کچھ استفادہ کر سکتے تھے۔