کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 147
’’خِدْمَت رَسُوْل اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عَشَرَ سِنِيْنَ مَا دريت شَيْئًا قَط وَافقه ، وَلَا شَيْئًا قَط خَالفه ، رَضِي مِنَ اللّٰه بِمَا كَانَ ، وَإِنْ كَانَ بَعْض أَزْوَاجه لِيَقُوْل : لَوْ فَعَلْت كَذَا وَكَذَا يَقُوْل : دَعوه ; فَإِنَّهٗ لَا يَكُوْن إِلَّا مَا أَرَادَ اللّٰه عَزَّ وَجَل‘‘ [1]
خلاصہ یہ کہ اوپر بیان کئے گئے صحابہ کرام کے ان چند واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہر اعتبار پیروی اور اطاعت کا نمونہ اور عملی تصویر تھیں۔ [2] زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کی پیروی کرنا ان کی زندگی کا متاع عزیز تھا۔ صحابہ کرام کے بعد اسلاف امت نے بھی ان کی اس سنت کو نسلاً بعد نسل جاری رکھا، چنانچہ ان کی زندگیوں میں بھی اس قسم کے متعدد واقعات ملتے ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف ایک واقعہ ہی نقل کرتے ہیں: ’’امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: میں نے کوئی حدیث ایسی نہیں لکھی جس پر میں نے عمل نہ کیا ہو، حتی کہ جب میں نے یہ پڑھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا تھا اور حجام کو ایک دینار عطا فرمایا تھا تو میں نے بھی فصد لگوائی اور
[1] رواہ الطبرانی فی الاوسط والصغیر کما فی مجمع الزوائد 9/16
[2] یہاں بعض لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے شجر بیعت رضوان کو کٹوا دینے کے قصہ سے غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ بعض کتب میں یہ قصہ یوں مذکور ہے: ’’عن نافع قال بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا يأتون الشجرة التي بويع تحتها فأمر بها فقطعت‘‘ (رواہ ابن ابی شیبہ 2/1 ص 84) اسی طرح ابن وضاح کا قول ہے کہ میں نے عیسیٰ بن یونس کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’أمر عمر بن الخطاب رضي الله عنه بقطع الشجرة التي بويع تحتها النبي صلي الله عليه وسلم فقطعها لأن الناس كانوا يذهبون فيصلون تحتها فخاف عليهم الفتنة‘‘ (كما في فتح المجيد للشيخ عبدالرحمن بن حسن آل شيخ، ص 206) – ان روایات میں سے ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقات ہیں لیکن یہ سلسلہ سند نافع اور عمر رضی اللہ عنہ کے مابین منقطع ہونے کے باعث ضعیف ہے۔ اس کے ضعف پر ’’صحیح البخاری‘‘ کی کتاب الجہاد میں وارد نافع کی عن ابن عمر یہ حدیث بھی تائید کرتی ہے:
’’جب ہم اگلے سال واپس لوٹے تو اس شجر کی تعیین پر کسی دو افراد کا بھی اتفاق نہ ہو سکا کہ جس کے نیچے ہم نے وہ بیعت کی تھی۔‘‘ (صحیح البخاری مع فتح الباری 6/117)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اس شجر کی جگہ خود صحابہ میں معروف نہ تھی پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس خدشہ سے اس کو کٹوا دینا کہ لوگ وہاں جا کر نماز پڑھتے ہیں، پس اس سے نفع یا ضرر کے حصول کے فتنہ میں نہ مبتلا ہو جائیں، محض خیالی باتیں ہیں۔ اسی طرح ’’صحیح البخاری‘‘ کی کتاب المغازی میں ہے کہ سعید بن المسیب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ:
’’میں نے وہ شجر دیکھا تھا لیکن جب بعد میں دوبارہ وہاں آیا تو اسے شناخت نہ کر سکا۔‘‘ (صحیح البخاری مع فتح الباری 7/447) اور طارق بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ:
’’میں عمرہ کے لئے نکلا تو ایک جماعت پر سے میرا گزرا ہوا جو کہ وہاں نماز پڑھ رہی تھی۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون سی مسجد ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ شجر ہے جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان کی تھی۔ جب میں سعید بن المسیب کے پاس پہنچا اور یہ ماجرا ان سے بیان کیا تو وہ ہنسنے لگے اور فرمایا کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ ’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس شجر کے نیچے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے لیکن جب عمرہ حدیبیہ کے لئے نکلے تو اس شجر کو بھول گئے اور اس کو شناخت کرنے پر قادر نہ رہے۔‘‘ اپنے والد سے یہ جملے نقل کرنے کے بعد سعید بن المسیب نے فرمایا: ’’جب اصحاب رسول اللہ اس شجر کو نہیں جانتے تھے تو تم کیسے جان سکتے ہو؟ کیا تم ان سے زیادہ علم رکھتے ہو؟‘‘ (نفس مصدر) – پس یہ واقعہ نہ عقلاً درست معلوم ہوتا ہے اور نہ نقلاً۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی اس قصہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (تحذیر الساجد من اتخاذ القبور المساجد ص 93-94)