کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 14
نے ان معترضین ہی کو عدل و امانت اور علم و فکر سے عاری ٹھہرایا۔
محترم مصنف نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے، اور ان تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جن کو نفس پرستی اور عصبیت کی وجہ سے گاہے بگاہے اٹھایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں صحابہ کرام کی عدالت، فقاہت اور دیگر متعلقہ مسائل زیر بحث آئے ہیں، اور ان سے کتاب کی جامعیت میں اضافہ ہوا ہے، موضوع کی یہی اہمیت و نزاکت تھی جس نے علمائے اہلحدیث کو مختلف ادوار میں اس پر بحث و نقد کے لئے آمادہ کیا، احسن اللّٰه لهم الجزاء۔
فاضل مصنف نے چوتھے باب کو سند اور اس سے متعلق مسائل کے لئے خاص کیا ہے، معترضین حدیث میں جو لوگ علوم و فنون میں ’’مہارت‘‘ کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ اکثر سند کے مسائل سے الجھتے ہیں، اور اس سلسلہ میں ایسی باتیں زیر بحث لاتے ہیں جن سے ان کے مقاصد کی تکمیل ہو، ایسے حضرات سلف صالحین کی ان کوششوں اور ان کے مثبت و مفید اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں، یا دانستہ ان سے اغماض کرتے ہیں، ورنہ جس اسناد کو امت مسلمہ کا امتیاز بتایا گیا ہے اور جس پر حدیث کی صحت و ضعف کی بنیاد ہے، اسے محدثین کرام کیسے نظر انداز کر سکتے تھے!
ائمہ جرح و تعدیل کے اختلاف کو بھی اٹھایا جاتا ہے، مصنف محترم نے اس نقطہ کا بھی جائزہ لیا ہے، اسی طرح محدثین کی اس ’’تقصیر‘‘ کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے کہ ان کی توجہ متن حدیث پر نہیں بلکہ صرف سند پر تھی، اس اعتراض کی حقیقت تو محدثین کرام نے عصر اول ہی میں واضح کر دی تھی، لیکن اس دور میں بھی محققین علماء نے اس پر اچھی روشنی ڈالی ہے، اور مصنف نے اس پر تشفی بخش بحث کی ہے۔
روایت بالمعنی کے ضمن میں بھی معترضین کئی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں، فاضل مصنف نے پانچویں باب کو اس مسئلہ کے لئے خاص کیا ہے، اور ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے، اور واضح کیا ہے کہ اس سلسلہ میں علمائے اسلام کا موقف کیا ہے، اس ذیل میں ایک اہم نقطہ یہ اٹھایا ہے کہ: روایت بالمعنی کی صورت میں سلف صالحین کس نوعیت کی احتیاط سے کام لیتے تھے، اس نقطہ کی اہمیت یہ ہے کہ معترضین روایت بالمعنی کے جواز سے یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ غیر ذمہ دارانہ طور پر بات کو نقل کر دیا جائے خواہ مقصودِ کلام کچھ بھی ہو! مصنف نے زیر نظر باب میں اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کیا روایت بالمعنی میں غلطی کا احتمال ہے، اور اس مسئلہ میں فقہاء کے مابین اختلاف کا سبب کیا ہے؟
چھٹے باب میں اخبار آحاد پر مصنف محترم کی بحث تفصیلی ہے، اس کی فہرست سات صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، غور کیا جائے تو یہ موضوع اسی توجہ کا مستحق ہے، اخبار آحاد ہی کی بنا پر اکثر معترضین اپنے خیالی محل تعمیر کرتے ہیں، اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے اخبار کی مختلف حیثیتوں سے تقسیم کی ہے، ان کی حجیت سے متعلق ادلہ و شواہد ذکر کئے ہیں، اختلافات کا جائزہ لیا ہے، اخبار آحاد کے منکرین پر محدثین کرام کی نقد و جرح کا تذکرہ کیا ہے، اخبار آحاد کے سلسلہ میں حنفیہ اور دیگر فقہی مذاہب کے ائمہ کا موقف بیان کیا ہے، عقائد و احکام دونوں میں اخبار آحاد سے استدلال کی ضرورت کو واضح کیا ہے، اور ان خطرناک نتائج کی نشاندہی کی ہے جو خبر واحد کو عقائد میں معتبر نہ ماننے سے