کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 13
و فرامین کے تعلق سے یہاں بعض حضرات کے دلوں میں خدشات و شبہات ہیں، انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے سلامتی سے نوازا ہے، اگر اس میں کہیں سے کسی طرح کا انحراف آیا ہے تو اس میں شریعت کے سرچشموں کا نہیں بلکہ خود انسان کا قصور ہے کہ اس نے اپنے لئے فکر و تعقل کے نام پر غیر مستقیم راہ اختیار کی، جس فن کو امت مسلمہ کا امتیاز قرار دیا جاتا ہے، اسی میں اس کی بے چینی کا سامان ہے:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونر سیدی تمام بو لہبی ست
بات کسی اور طرف جا رہی ہے، میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہندوستان میں حدیث سے متعلق شبہات و اعتراضات رکھنے والے حضرات کے پس منظر میں محترم غازی عزیر صاحب کی تصنیف لطیف کی فہرست پر نظر ڈالئے تو مفید تو ہر عنوان نظر آتا ہے، لیکن بعض عناوین سے تسلی مزید حاصل ہوتی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ ان افکار و خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے جنہیں حدیث کے سلسلہ میں تشکیک پیدا کرنے والے لوگ وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں، اس طرح کے عناوین پر اپنے تاثرات ظاہر کروں گا تو بات طویل ہو جائے گی، صرف بعض عناوین کا ذکر کر دیتا ہوں:
٭ فیصلہ کن انداز میں مصنف کا یہ فرمانا بڑی معنویت رکھتا ہے کہ: ’’اصول شریعت میں حدیث و سنت کی ثانوی حیثیت ناقابل قبول ہے۔‘‘
٭ اور یہ عنوان بھی توجہ طلب ہے کہ: ’’عدم اتباعِ سنت انکارِ رسالت کے مترادف ہے۔‘‘
باب دوم کے تمام مباحث اہمیت کے مالک ہیں کیونکہ ان میں ایسے امور زیر بحث لائے گئے ہیں جن کے سہارے بعض فقہاء حدیث کو رد کر دیتے ہیں، اس باب کی ابتدائی تین سرخیوں پر توجہ کی ضرورت ہے:
’’قرآن و سنت میں سے کسی ایک چیز پر اکتفاء کرنا گمراہی کا باعث ہے۔‘‘
’’فہم قرآن کے لئے صرف زبان پر قدرت کافی نہیں ہے۔‘‘
’’فہم قرآن سنت کا محتاج ہے۔‘‘
ان عناوین کے ذریعہ مصنف نے ان حیلوں کا جائزہ لیا ہے جنہیں سنت سے گریز کرنے والے کبھی کبھی پیش کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث شریف کا اخذ و تلقی، اس پر غوروفکر، اس کے احکام پر عمل اور اس کی نشر و اشاعت سے متعلق تمام ذمہ داریاں اولاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی پر عائد ہوئیں، اور انہوں نے انہیں بطریق احسن ادا کیا جس کی گواہی قرآن و حدیث اور امت کے اجماع میں موجود ہے، حدیث نبوی کے معترضین کو ’’رعیل اول‘‘ کا یہ بلند و بالا مقام کسی حد تک معلوم تھا، اس لئے انہوں نے صحابہ کرام کی حیثیت کو بھی نشانہ بنایا، اور اس سلسلہ میں بڑی بودی اور ساقط الاعتبار باتیں کیں، صحابہ کی عظمت اس سے کیا متاثر ہوتی امت نے اور دنیا بھر کے مصنفین