کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 12
علم و تقویٰ میں علاقائیت کی بات نہیں، پھر بھی اہل قلم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بعض علاقے بعض علمی خدمت کے لئے مشہور ہو گئے، اور یہ شہرت آج بھی زبان پر آتی ہے، خدمتِ حدیث کے سلسلہ میں ہندوستان کو بھی ایک امتیاز حاصل ہے، اس ملک میں مختلف نوعیت کی خدمتِ حدیث کے نمونے ہمارے سامنے ہیں، کسی کو اللہ تعالیٰ نے مجموعہ حدیث تیار کرنے کی توفیق بخشی، کسی نے لغاتِ حدیث پر کام کیا، کسی نے شرح حدیث کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے، کسی نے اصول حدیث کے کسی شعبہ کو منتخب کیا، کسی نے اعتراضات کے جواب کی ذمہ داری سنبھالی، اور اس طرح یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس روشن پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے ذہن تاریک پہلو کی طرف خود بخود منتقل ہو جاتا ہے، اور وہ نامسعود کوششیں سامنے آ جاتی ہیں جنہیں اس ملک کے بعض لوگوں نے وقتاً فوقتاً انجام دیا، اور اس طرح اہل علم کی تنقید کا نشانہ بنے، اگر اس طرح کی منفی خدمت اور اسلام دشمن سرگرمی سے اس ملک کا دامن پاک ہوتا تو اس کے لئے بڑی عزت کا سبب بنتا۔ ٭ مصنف نے کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے، اور موضوعات کے لحاظ سے ایسی ترتیب دی ہے جو واقعہ کے مطابق اور منطقی ہے، چنانچہ پہلے باب کی بڑی سرخی ’’حدیث کا تعارفی خاکہ‘‘ ہے، دوسرے باب میں ’’قرآن و سنت کے باہمی تعلق‘‘ سے بحث کی گئی ہے، تیسرے باب کا عنوان ’’صحابہ کرام اور شرفِ قبولیت‘‘ سے متعلق ہے، چوتھا باب سند اور فن جرح و تعدیل کے لئے خاص ہے، پانچویں باب میں روایت بالمعنی کی بحث ہے، چھٹا باب ’’اخبار آحاد اور ان کی حجیت‘‘ پر روشنی ڈالتا ہے، ساتواں باب وضع حدیث کے فتنہ سے متعلق ہے، آخری تینوں ابواب (8، 9، 10) میں براہ راست اصلاحی صاحب کے افکار و نظریات سے بحث ہے، اور دلائل کی روشنی میں ان کی قدر و قیمت متعین کی گئی ہے۔ زیرنظر تصنیف میں مصنف کی یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کو صرف جوابی کتاب نہیں بنایا ہے، بلکہ مسائل کا اس طرح احاطہ کیا ہے کہ یہ کتاب علمِ حدیث کا موسوعہ بن گئی ہے، حدیث کے جن مسائل سے متعلق اصلاحی صاحب کے افکار و خیالات کا جائزہ لینا ہے، پہلے ان کو مصنف نے بنیادی مآخذ کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، پھر اصلاحی صاحب کا نقطہ نظر پیش کر کے اس کی صحت و سقیم پر روشنی ڈالی ہے، اس اندازِ بحث سے قاری کو مسئلہ کی پوری نوعیت معلوم ہو جاتی ہے، پھر اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ کتاب کو اس قدر جامع اور مفصل بنانے کے لیے مصنف نے سینکڑوں مآخذ کو کھنگالا، اور شب روز کی محنت و جگر سوزی سے یہ گلدستہ تیار کیا ہے، کتاب قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو وہ اسے یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ برِصغیر کی ثقافتی و دینی تاریخ میں جب ہمارے ملک ہندوستان کا ذکر آئے گا تو یہ ناخوشگوار پہلو بھی سامنے آئے گا کہ جس رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم نے [قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰه فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ]اور [وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ]کا اعزاز و استناد عطا فرمایا ہے، اسی کے ارشادات