کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 110
[1]کا یہ ارشاد موجود ہے: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ﴾۔ یہ ذکر اور ہدایت ہم نے نازل کی اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ قرآن کی ایسی حفاظت ہوئی کہ تمام عالم نے ہماری کتاب کی صحت پر شہادت دی لیکن حدیث! توبہ ہی بھلی، اس کا تو یہ ستیاناس ہوا کہ اس سے زیادہ محرف اور مسخ شدہ لٹریچر دنیا کے صفحے پہ موجود نہیں الخ۔‘‘ [2](1)
انجمن اسوہ حسنہ پاکستان کے مؤسس جناب مولانا حبیب الرحمان صدیقی کاندھلوی صاحب کے ہم مشرب جناب نظام الدین صاحب (معتمد عمومی، الرحمان پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی) بھی مؤسس موصوف کی کتاب ’’مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت‘‘ جلد چہارم کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ﴾۔ یعنی ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ جبکہ احادیث کے لئے ایسی کوئی ضمانت نہیں ہے – خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے الخ۔‘‘ [3](2)
افسوس کہ مولانا حمید الدین فراہی صاحب بھی محدثین کی روش کے خلاف ’’مقدمہ نظام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ ہمارے بعض بھائیوں کا غلو ہے کہ وہ حفاظت قرآن کی طرح حفاظت حدیث کے قائل ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ بخاری اور مسلم میں جو کچھ روایت ہو گیا ہے اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب متعدد روایتوں میں نہایت بھونڈا اختلاف نقل ہوا ہے۔‘‘ [4](3)
(فإنا لله و إنا إليه راجعون)
[1] (بقیہ پچھلے صفحہ کا) ہیں لیکن بعض علماء نے کثرت طرق کے باعث اسے حسن کہا ہے۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا یہ قول علماء کے یہاں پسندیدہ نہیں ہے اس لئے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ بالفرض اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ عادل لوگوں کو ایک دوسرے کے پیچھے اس کے علم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا نا چاہئے۔ اس تاویل کی دلیل یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی پائے جائیں گے جو اس علم کے حامل ہوں گے، لیکن وہ اس کے عادل نہ ہوں گے۔‘‘ (تیسیر مصطلح الحدیث، ص: 143)
محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے ’’تعلیق علی المشکاۃ‘‘ میں اس حدیث پر فی الجملہ کوئی حکم لگانے سے توقف کیا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح 1/82-83) لیکن ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ‘‘ (1/485) میں اس کو ذکر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے بلکہ مفید اور اہم قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمعطی امین قلعجی نے ’’الضعفاء الکبیر‘‘ للعقیلی کے ضمیمہ میں اس حدیث کو ’’الاحادیث الصحیحہ‘‘ کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔ (ضمیمہ الضعفاء الکبیر4/525)۔ خلاصہ تحقیق یہ کہ راقم کے نزدیک زیر مطالعہ حدیث کی تحسین لغیرہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
[2] 1 دو اسلام، ص: 118-119
[3] 2 پیش لفظ مذہبی داستانیں 4/15
[4] 3 رسالہ تدبر لاہور عدد نمبر 37، ص: 34 مجریہ ماہ نومبر 1991ء