کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 109
[1]’’بہرحال وحی کسی طریقے سے آئے وہ وحی ہے۔ واجب التعمیل اور واجب الحفاظت ہے۔ قرآن کے متعلق اللہ
[1] (بقیہ پچھلے صفحہ کا) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تکذیب فرمائی ہے اور وضع احادیث کی طرف اس کی نسبت کی ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد 1/140)
محمد بن ابراہیم الوزیر الصنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث حضرت ابوہریرہ، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن عاص، عبداللہ بن عمر بن الخطاب، ابو امامہ الباھلی اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً مسنداً مروی ہے۔‘‘ امام عقیلی رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ اور ابن عمرو بن العاص سے مسنداً اس کی روایت کی ہے اور فرماتے ہیں: ’’الإسناد أولي‘‘ لیکن حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ نے اس کی اسناد کی تضعیف فرمائی ہے۔ ابن قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الإرسال أولي‘‘ امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’اس کی روایت ہمارے اصحاب میں سے ثقات نے ولید بن مسلم عن ابراہیم بن عبدالرحمان کے طریق سے بھی کی ہے۔‘‘ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معان یعنی ابن رفاعۃ عن ابراہیم بن عبدالرحمان العذری التابعی سے متعدد لوگوں نے اس کی روایت کی ہے۔‘‘ علامہ صنعانی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’حدیث کی صحت قوی ہے جیسا کہ اس کی طرف اہل الحدیث کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ گئے ہیں۔‘‘ (الروض الباسم 1/21، 23، تنقیح الانظار 2/129-132)
واضح رہے کہ امام عقیلی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمرو بن عاص اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے علاوہ حضرت ابو امامہ الباھلی کے طریق سے بھی اس حدیث کی تخریج فرمائی ہے۔ (الضعفاء الکبیر 1/9، 10) لیکن آں رحمہ اللہ سے منقول ’’الاسناد اولی‘‘ کے الفاظ مجھے نہیں مل سکے اور امام ذہبی کے قول میں ’’ومعان ليس بعمدة‘‘ کے الفاظ بھی موجود ہیں جو امام رحمہ اللہ کے نزدیک اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال 1/43)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ حضرت اسامہ بن زید کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کو صحابہ میں سے حضرات علی، ابن عمر، ابن عمرو، ابن مسعود، ابن عباس، جابر بن سمرہ، معاذ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے اس کو بکثرت طرق وارد کیا ہے جو کہ سب ضعیف ہیں جیسا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ، ابو نعیم رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے لیکن تعدد طرق سے اس کا تقویت پا کر حسن ہونا ممکن ہے جیسا کہ علامہ ابن کیکلدی علائی رحمہ اللہ نے بالجزم بیان کیا ہے۔‘‘ (کما فی مقدمۃ تحفۃ الاحوذی، ص: 7)
علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کی ایک سے زیادہ صحابہ نے روایت کی ہے، امام ابن عدی رحمہ اللہ، امام دارقطنی رحمہ اللہ اور امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس حدیث کا متعدد طرق سے مروی ہونا تحسین کا متقاضی ہے جیسا کہ علائی نے بالجزم بیان کیا ہے۔‘‘ (قواعد التحدیث، ص: 49-50)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’مفتاح دار السعادۃ‘‘ 1/163-164 میں اس روایت کے متعدد طرق کو بلا نقد جمع کیا ہے۔ علائی رحمہ اللہ حضرت اسامہ کی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ’’إنه حسن غريب‘‘ (بغیۃ الملتمس، ص: 3-4، توضیح الافکار 2/129، تعلیق علی المشکاۃ للألبانی 1/83) علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ وغیرہما ناقل ہیں: ’’کسی شخص نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کلام موضوع ہے تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’لا هو صحيح، سمعته من غير واحد‘‘ یعنی نہیں، یہ حدیث صحیح ہے میں نے اس کو متعدد حفاظ سے سنا ہے۔‘‘ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب، ص: 29، تنقیح الرواۃ للسید ابی الوزیر 1/54، فتح المغیث للعراقی، ص: 143، التقیید والایضاح للعراقی، ص: 116، تدریب الراوی للسیوطی 1/303، الجامع للخطیب 1/129، مفتاح دارالسعادۃ 1/164 وغیرہ)
لیکن امام ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وخفي علي أحمد من أمره ما علمه غيره‘‘ (التقیید والإیضاح ص 116، تدریب الراوی للسیوطی 1/303) شیخ عبدالوہاب عبداللطیف امام زرکشی رحمہ اللہ سے ناقل ہیں: ’’وفيما صار إليه ابن القطان من تضعيفه نظر فإنه يتقوي بتعدد طرقه ۔۔الخ‘‘ (حاشیہ بر تدریب الراوی 1/303) اس حدیث کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هذا اخبار منه صلي الله عليه وسلم بصيانة هذا العلم و حفظه و عدالة ناقليه و إن الله يوفق له في كل عصر خلفا من العدول، يحملونه و ينفون عنه التحريف فلا يضيع، وهذا التصريح بعدالة حامليه في كل عصر وهكذا وقع و لله الحمد وهو من أعلام النبوة ولا يضر كون بعض الفساق يعرف شيئا من علم الحديث فما هو إخبار بأن العدول يحملونه لا أن غيرهم لا يعرف شيئا منه‘‘ (تہذیب للنووی 1/17 و کما فی مقدمۃ تحفۃ الأحوذی، ص: 7-8 و قواعد التحدیث، ص: 49-50)
ڈاکٹر محمود الطحان کا قول ہے: ’’اس حدیث کو ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل وغیرہ میں روایت کیا ہے۔ عراقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے جملہ طرق ضعیف