کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 108
کرنے والی تحریف، باطل پرستوں کی گھڑی ہوئی اور جاہلوں کی تاویل سے پاک کرتے رہیں گے۔‘‘ [1] سرمایہ حدیث کے محفوظ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جمہور امت نے اسے متفقہ طور پر محفوظ و مصون سمجھ کر تصدیقاً و عملاً قبول کیا ہے اور چونکہ پوری امت گمراہی پر کبھی جمع نہیں ہو سکتی لہٰذا یوں بھی ہمارا نقطہ نظر ثابت ہوا، فالحد للہ علی ذلک۔ لیکن ائمہ محدثین کے اس صریح و صحیح نقطہ نظر کے برعکس ڈاکٹر غلام جیلانی برق سنت نبوی کے منجانب اللہ محفوظ و مصون ہونے کے منکر ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
[1] امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’المدخل‘‘ میں اس حدیث کی تخریج مرسلا کی ہے لیکن صحابہ کی ایک جماعت مثلاً حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، ابو امامۃ الباھلی اور اسامہ بن زید وغیرہ رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث موصولا بھی مروی ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے مقدمہ ’’الکامل‘‘ ص 190، 231، 233 اور ’’الکامل‘‘ 1/152، 153، 2/511، 3/904 میں، ابو نصر السجزی نے ’’الابانہ عن اصول الدیانہ‘‘ میں، ابو نعیم اصبہانی، ابن عساکر، حاکم، دیلمی، عقیلی اور بزار رحمہم اللہ نے بھی اس کی تخریج کی ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’شرف اصحاب الحدیث‘‘ اور ’’الجامع‘‘ (1/128) میں اس حدیث کی روایت حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ھریرہ اور حضرت ابراہیم بن عبدالرحمان العذری وغیرہ سے کی ہے۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے ’’الجرح والتعدیل‘‘ (1، 2/17) میں، ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے ’’عیون الأخبار‘‘ (2/119) میں، ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات‘‘ (4/10) میں، ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ’’التمہید‘‘ (1/58-60) میں، حافظ عراقی رحمہ اللہ نے ’’فتح المغیث‘‘ (ص 142-144) میں، خطیب تبریزی رحمہ اللہ نے ’’مشکوۃ‘‘ (1/54 مع تنقیح الرواۃ) میں، علامہ متقی الہندی رحمہ اللہ نے ’’کنز العمال‘‘ (10/176) میں، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کشف الأستار (1/86) میں، اور علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’مقدمہ تحفۃ الاحوذی‘‘ (ص 7) میں اس کو وارد کیا ہے۔ لیکن دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’إنه لا يصح مرفوعا يعني مسنداً‘‘ (مفتاح دارالسعادۃ لابن قیم (1/163-164) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أسانيده كلها مضطربة غير مستقيمة‘‘ (اسد الغابۃ لابن الاثیر 1/53) حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكلها ضعيفة لا يثبت منها شيء وليس فيها شيء يقوي المرسل المذكور‘‘ (التقیید والایضاح ص 116، فتح المغیث للعراقی ص 143-144، تدریب الراوی 1/303) امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’في صحته نظر قوي والأغلب عدم صحته ولو صح لكان ما ذهب إليه قوياً‘‘ (الباعث الحثیث، ص: 94) لیکن امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح فرمائی ہے۔‘‘ (شرف أصحاب الحدیث، ص: 29، فتح المغیث للعراقی ص 143، التقیید والایضاح للعراقی ص 116، تدریب الراوی 1/303، الجامع للخطیب 1/129 وغیرہ) امام ابن القطان رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے کلام پر تعقب کیا ہے۔ (الاصابہ 1/118، کنز العمال 10/176) جس کا تذکرہ آگے ہو گا۔ امام ابن مندہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی روایت بطريق الحسن بن عرفة حدثنا إسماعيل بن عياش عن معاذ بن رفاعة قال حدثني إبراهيم بن عبدالرحمان العزري وكان من الصحابة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال (فذكره) کی ہے، اور فرماتے ہیں: ’’ولم يتابع ابن عرفة علي قوله وكان من الصحابة‘‘ یعنی ابن عرفہ کے قول کہ ’’وكان من الصحابة‘‘ کی متابعت نہیں پائی جاتی۔ قاضی وکیع کی کتاب ’’الغرر فی الأخبار‘‘ میں حسن بن عرفہ کی جو روایت مروی ہے اس میں ’’وكان من الصحابة‘‘ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ ابن مندہ رحمہ اللہ نے اسے بطریق معاذ عن ابراہیم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روایت کیا ہے۔ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس کو وارد کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’وهكذا رواه الوليد عن معاذ و رواه محمد بن سليمان بن أبي كريمة عن معاذ عن أبي عثمان عن أسامة ولا يثبت‘‘ یعنی اسی طرح ولید نے معاذ سے اس کی روایت کی ہے اور محمد بن سلیمان بن ابی کریمہ نے معاذ سے، انہوں نے ابو عثمان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کی روایت کی ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس طریق کو ’’شرف اصحاب الحدیث میں موصولا روایت کیا ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بہت سے طرق کے ساتھ وارد کیا ہے لیکن وہ سب طرق ضعیف ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر یہ بھی فرمایا ہے: رواه الثقات عن الوليد عن معاذ عن ابراهيم، قال حدثنا من اصحابنا ان رسول الله صلي الله عليه وسلم فذكره ۔‘‘ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ 1/124) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی امام بزار کی روایت کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کی سند میں عمرو بن خالد القرشی ہے جس کی