کتاب: امراۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ - صفحہ 8
ہوئی ہے جو ہمارے لئے اعداء دین نے پیش کی ہے ان کے رَدّ و قبول اور اخذ و ترک کے بنیادی معیار وہی ہیں جو ہمارے کھلے دشمنوں نے ایجاد کئے ہیں اگر وہ لوگ اپنی لغت پرستانہ مدنیت فاسدہ کی بدولت حجاب نسواں کو جاہلانہ رسم قرار دیتے ہیں تو یہ لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر اُمت مسلمہ کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پردہ ملاؤں کی ایجاد کردہ رسم ہے جس کا اسلا م سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ لوگ اپنی شہوت پرستانہ تہذیب کی بدولت مرد و زن کی مخلوط سوسائٹی کے قائل ہیں تو یہ فکر اسلامی کے علمبردار مخلوط سوسائٹی کو قرآن سے کشید کر ڈالتے ہیں۔ فانا لله و انا الیہ راجعون۔ اب ہمارے غلام فطرت مستغربین، مستشرقین کے خود ساختہ افکار و نظریات کو اُمت مسلمہ میں رواج دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں صرف فکر اور نظریئے ہی کی حد تک نہیں بلکہ عملاً مدنیت و معاشرت کا وہ پورا نقشہ، قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا جا رہا ہے جو تہذب مغرب کا تشکیل کردہ ہے۔ مثلاً مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترک حجاب، مرد و زن کی مطلق اور کامل مساوات، اندرون خانہ فرائض نسواں کے بجائے اسے بیرونِ خانہ مردانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعدد ازواج کو معیوب قرار دینا عورت کو خانگی مستقر سے اکھاڑ کر مردانہ کارگاہوں میں لا کھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اس کے فطری وظائف سے اسے منحرف کر کے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ وغیرہ اور اب تو ماشاء اللہ صنف نازک کو خلیفہ شرعی قرار دیتے ہوئے انی جاعل فی الارض خلیفة سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں اس سرزمین پاکستان کو یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ یہاں اس قدر فکری زرخیزی ہے کہ گاہے بگاہے یہاں کوئی نہ کوئی نام نہاد مصلح، اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والا، مفکر قرآن اور اس طرح کے دیگر گماشتہ یہود و ہنود سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو کبھی یہ رونا روتے ہیں کہ اصل دستورِ عمل قران اور صرف قرآن مجید ہے جس سے ہمیشہ اعراض ہوتا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ روایات (احادیث) ہیں جو مسلمانوں میں ایرانی سازش کے تحت سنت رسول بنا کر رائج کر دی گئی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کا نعرہ بلند کر کے یہ لوگ جہاں احادیث سے عداوت کا اظہار کرتے ہیں وہاں یہ قرآن