کتاب: امراۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ - صفحہ 71
لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (سورة النساء آیت ۱۱) وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی (سورة آل عمران آیت ۳۶) کہہ کر مردوں کی فوقیت عورتوں پر کیوں بیان کی گئی ہے؟ اور ظاہر ہے کہ ابو خالد صاحب کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکیں گے۔ لہٰذا انکار قرآن بھی کریں گے۔ اور اگر کوئی توجیہ کی صورت نکالیں گے تو احادیث کی توجیہ بھی پیش کی جا سکتی ہے۔جناب اپنی زوجہ کے فوق ہو نہ ہوں، مسلمانوں کی عورتیں بہرحال ان کے تحت ہی ہوتی ہیں۔ سورة تحریم آیت نمبر ۱۰ دیکھئے۔ اور تحت کا معنی تو جناب کو معلوم ہی ہو گا ہم مشورہ دیں گے کہ جناب سیدھی طرح اپنی فوقیت کو مان لیجئے ورنہ تو پھر تحت بننے کیلئے تیار ہوجائیے۔ آخر میں جناب نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سات فضیلتوں کا ذکر کیا ہے اور یہ سب فضیلتیں عورتوں کی ہیں اور احادیث سے ثابت ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جناب کا احادیث پر بے جااوربلادلیل اعتراض لغو اور باطل ہے۔ یا تو جناب کھل کر احادیث کا کلی طور سے انکار کریں اور یاپھرانکا اقرار کرکے نام نہاد مسلمانوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر صحیح احادیث سے ثابت شدہ عورتوں کی فضیلت سے کوئی منکر ہے تو اس کو اپنی اصلاح کرناچاہیے اور حقیقی مسلمان بننا چاہیے۔ یہی جناب کا مدعا ہے اور ہماری کوشش بھی۔ اس لئے جناب کاتمام مسلمانوں کو نام نہاد مسلمان کہنا انتہائی غلط جسارت و ہٹ دھرمی ہے، جس سے جناب کو توبہ کرنا چاہیے۔ وآخر دعوانا انِ الحمد للّٰه رب العالمین وصلی اللّٰه تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ اجمعین۔