کتاب: امراۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ - صفحہ 70
سے ایک جھوٹی بات منسوب کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لڑکی کا عقیقہ ایک بکرا ہو گا اور لڑکے کے دو۔ غور کیجئے اس طریقے سے ہم قرآن کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر میری بیٹی مجھ سے پوچھے کہ میری ولادت پر ایک اور بھائی کی ولادت پر دو بکرے کیوں کئے گئے؟تواس کو میں کیا جواب دوں گا؟ (دیکھئے صفحہ:۱۶۴ سے ۱۶۶ تک)۔ تحقیقی نظر: ہمارا جناب سے سوال ہے کہ لڑکی کے عقیقہ پر ایک بکرا ذبح کرنا اور لڑکے کے عقیقہ پر دو بکرے ذبح کرنا قرآن کی کس آیت کی خلاف ورزی ہے؟ وہ آیت ذرا بتا دیجئے۔لگتا ہے جناب نے اپنا قرآن بھی کسی اور ہی چیز کو قرار دیا ہوا ہے۔ واللّٰه اعلم۔ جناب کو شاید اتنا بھی معلوم نہیں کہ عقیقہ فقط خوشی کا اظہار ہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ شریعت مطہرہ کا ایک حکم اور عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے کسی کی رائے پر قائم نہیں ہوتی۔ویسے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ جناب کو اس مسئلہ پر اعتراض کا کوئی حق ہی نہیں تو بھی ہماری بات صحیح ہے کیونکہ آج کل جناب جس فقہ کو فی کی گود میں بیٹھ کر عداوت رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کر رہے ہیں، اس فقہ میں عقیقہ مسنون عمل ہی نہیں ہے۔ اگر ہے تو جناب ذرا کسی مستند کتاب فقہ سے دکھا دیں۔باقی رہا جناب کی بیٹی کا اعتراض کہ ایک اور دو بکرے کیوں؟ تو ہم عرض کریں گے کہ کیا جناب بمع اہل بیت ہی پٹری سے اتر گئے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹی صاحبہ سبحان اللہ۔ ہاں البتہ پابند شرع خاتون کی خدمت میں عرض کریں گے کہ آپ موصوف ابو خالد کے گمراہ نظریہ سے متاثر نہ ہوں، بلکہ قرآن و سنت کا براہ راست مطالعہ کریں۔اگر جناب کی بیٹی کو جناب جواب نہیں دے سکے، اس لئے منکر حدیث بن بیٹھے تو ہم عرض کریں گے، جناب آپ منکر قرآن بھی بن جائیں، کیونکہ آپ کی بیٹی قرآن پر بھی اعتراض کرسکتی ہے کہ ابا حضور قرآن مجید میں اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ (سورة النساء آیت ۳۴) وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَةٌ (سورة البقرہ آیت ۲۲۸)