کتاب: امراۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ - صفحہ 7
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
مقدمہ
ان الحمد للّٰه نحمد و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللّٰه من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ و اشھد ان لآ الہ الا اللّٰه و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
اما بعد!
عداوتوں میں بدترین عداوت وہ ہوتی ہے جو دوستی کے پیرائے میں اختیار کی جائے اور انسان کو پتہ ہی نہ چل پائے کہ اس لباس خلعت میں ملبوس شخصیت اس کی دوست نہیں بلکہ اس کی دشمن ہے۔ انسان اپنے کھلے دشمن سے نقصان اٹھا سکتا ہے مگر دھوکہ نہیں کھا سکتا، لیکن اس دشمن سے جو عداوت کا لباس پہن کر نہیں بلکہ دوستی کا لباس پہن کر آتا ہے اور باب عداوت سے نہیں بلکہ پرخلوص دوستی کے دروازے سے وارِد ہوتا ہے انسان دھوکہ بھی کھاتا ہے اور نقصان بھی اٹھاتا ہے۔
ہمارے دشمنوں کی ایک قسم وہ ہے جس کے افراد کھلے بندوں ہمیں ہمارے دین سے برگشتہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہماری تہذیب کے ان اعداء نے ہمارے دین کے مقابلے میں ایک خودساختہ دین پیش کیا ہے کہ جو اللہ پرستی کے بجائے ہویٰ پرستی کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کا پورا نقشہ حیات ہمارے اسلامی نقشہ حیات کی ضد واقع ہوا ہے۔ جس میں خیر و شر کی بنیاد، انبیائے معصومین کے مبنی بر وحی ٹھوس علم پر ہونے کے بجائے، آزاد فکر فلسفیوں کے ظنی قیاسات پر قائم ہے۔ بدقسمتی سے تقریباً سارا عالم اسلام، ہمارے دین و تہذیب کے ان کھلے دشمنوں کی سیاسی غلامی میں صدیوں مبتلا رہا ہے۔ عالم اسلام کا بیشتر حصہ اگرچہ اب سیاسی آزادی سے ہمکنار ہو چکا ہے لیکن ابھی تک وہ ذہنی غلامی سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔
ان کھلے دشمنوں کے بعد اب ذرا ان نقاب پوش اعدائے اسلام کو بھی ملاحظہ فرمائیے جو اسلام کا لباد اوڑھ کر مصلحین کے روپ میں مسلم معاشرے میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان کی فکر اسی سانچے میں ڈھلی