کتاب: امراۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ - صفحہ 41
نہیں دیا۔ کیوں؟
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ملک یمین لونڈی کا ذکر تو سورة احزاب وغیرہ میں موجود ہے۔ مگرحدیث کے دشمنوں کو یہ کیوں اور کیسے نظر آئے؟
آخر میں پھر سورہ النساء کی آیت ۲۵ کا ذکر کے لکھاہے کہ لونڈی سے بھی نکاح مع مہر ہی ضروری ہے، متمتع ہونے کے لئے (مفہوماً)۔
اس پر تفصیلی جواب ملاحظہ کیجئے۔
لونڈیوں سے تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
۱…جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کرلینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کردی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کردے چاہے ان سے فدیہ لے چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے، جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انہی سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
۲…جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے، اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہو لے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔
۳…جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ بہرحال جب وہ تقسیم کردی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کرسکتے ہیں۔
۴…جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو، اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح