کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 77
اربعہ) علماء سے (کتاب وسنّت کا )مسئلہ پوچھا جائے۔ دیوبندیوں نے تاویلِ مذکور کے ساتھ عوام الناس کو صراط مستقیم سے ہٹا رکھا ہے۔ جو شخص یہ سمجھے کہ امام ابوحنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم میں سے ایک متعین کا قول ہی صحیح ہے۔اس کی اتباع کرنی چاہیئے دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیئے،ایسے شخص کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: (فمن فعل ھذا کان جاھلاً ضالاً،بل قدیکون کافراً،فانہ متی اعتقد أنہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھو لاء الأئمۃ دون الامام الآخر فانہ یجب أن یستتاب فان تاب والا قتل،بل غایۃ مایقول انہ یسوغ أوینبغي أو یجب علی العامي أن یقلد واحداً لا بعینہ من غیر تعین زید ولا عمرو،وأما أن یقول قائل:انہ یجب علی العامۃ تقلید فلان أو فلان فھذا لا یقولہ مسلم) [1] ’’پس جو شخص ایسا کرے وہ جاہل وگمراہ ہے بلکہ بعض اوقات کافر ہوجاتا ہے۔کیونکہ جب وہ یہ عقیدہ رکھے کہ لوگوں پر ان(چار) اماموں میں سے ایک متعین امام کی اتباع واجب ہے دوسرے(کسی)امام کی نہیں تو یہ ضروری ہے کہ اسے توبہ کرائی جائے اگر کرلے تو بہتر ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عامی کے لیے زید وعمرو کے تعین کے بغیر کسی ایک غیر متعین کی تقلید[2]جائز،بہتر یا واجب ہے۔رہا یہ کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے:عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے تو اس کا کوئی مسلمان قائل نہیں ہے۔‘‘
[1] مجموع فتاویٰ،ج۲۲ص۲۴۹ [2] تقلید کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ عامی کے لیے بھی تقلید جائز نہیں ہے۔عامی پر یہ واجب ہے کہ وہ صحیح العقیدہ علماء سے قرآن وسنّت پوچھ کر اس پر عمل کرے۔قرآن وحدیث پوچھنا اور اس پر عمل کرنا تقلید نہیں کہلاتا بلکہ اتباع واقتداء کہلاتا ہے۔