کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 62
’’یا رسولِ کبریا فریاد ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصطفی فریاد ہے آپ کی امداد ہو میرا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم حال ابتر ہوا فریاد ہے سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا[1] فریاد ہے‘‘[2] مولانا زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ محمد بن عبداللہ:صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا: ’’یہ تیرا باپ بڑا گناہ گار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجتا تھا۔جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو اس کی فریاد کو پہنچا اور میں ہر اُس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے۔‘‘[3]
[1] اس قسم کے نصوصِ دیوبندیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مفتی محمد حنیف خالد دیوبندی صاحب مخلوق کے لیے مشکل کشا کا لفظ جائز قرار دینے کے لیے لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کی مختلف اسباب کے ذریعے مددکرتا ہے۔کیونکہ دنیا دارالاسباب ہے۔یہاں اسباب کو اختیار کیے بغیر عام طورپر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔اب جس سبب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے یا کوئی مشکل حل کی ہے،اصل مددگار اور مشکل حل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے مگر محض آلہ اور واسطہ کے درجے میں اس سبب کو بھی مددگار اور مشکل حل کرنے والا کہہ دیا جاتا ہے۔جیسا کہ آج کل کے محاورے میں بھی ایسا کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص ہمارا بڑا ہی حمایتی اور مددگار ہے،فلاں شخص نے ہمارا فلاں مشکل مسئلہ حل کرادیاہے،یہاں یہ کہنے والا شخص یقینی طور پر اصل اور ذات کے اعتبار سے تو حمایتی،مددگار اور مشکل حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کو ہی سمجھتا ہے مگر صرف اسباب کے درجے میں اس شخص کو بھی حمایتی،مددگار اور مشکل حل کرنے والا کہہ دیتا ہے،شرعاً اس طرح کہنا کوئی ناجائز یا شرک وکفر نہیں ہے بلکہ جائز ہے‘‘۔(فتویٰ ۹/ذولحجہ ۱۴۲۲ ؁ھ،ص ۱،غیرمطبوعہ) بعینہ یہی عقیدہ بریلویوں کا ہے۔محمدیوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں:’’لیکن دیوبندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘(اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم،ج۱،ص۳۸) [2] کلیاتِ امدادیہ،ص۹۰،۹۱ [3] تبلیغی نصاب،ص۷۹۱،فضائلِ درود۔ص۱۱۳