کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 50
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم تقدیم اسلام میں نماز کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے جب کوئی شخص توحید ورسالت کا اقرار کرلے تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے تو اس پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہوجاتی ہیں،اسلام میں اس بات کا کوئی تصور بھی نہیں کہ کوئی شخص مسلم ہونے کا دعوے دار ہو اور وہ نماز ادا نہ کرتا ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ٔ مبارک میں منافقین اپنے نفاق کو چھپانے کے لیے نماز کو باجماعت ادا کیا کرتے تھے،اسلام میں جہاں نماز کی اس قدر اہمیت ہے وہاں اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ خلافِ سنّت کوئی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ)) [1] ’’جس کسی نے ایسا عمل کیا کہ جس کا حکم ہم نے نہیں دیا اس کا وہ عمل مردود ہے۔‘‘ اسی طرح نماز بھی اس شخص کی اقتدا میں ادا کرنا ضروری ہے جو عامل بالسنہ ہو،اما م کے عقائد ونظریات اور اعمال قرآن وحدیث سے متصادم ہوں تو ایسا شخص سرے سے امامت کا اہل ہی نہیں،اس مسئلہ پر تمام اہل السنۃ اور اہلِ حدیث(کے جمہور) علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی بدعقیدہ اور بدعتی شخص نماز پڑھا رہا ہوتو اس کی اقتداء میں نماز ادانہیں ہوگی۔بدعتی سے مراد جہمیہ،خارجیہ،معتزلہ،روافض،مرجئیہ وغیرہ ہیں اور جو شخص عقائد میں ان فرقوں میں سے کسی کے ساتھ موافقت رکھتا ہے تو وہ بھی انہیں میں داخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
[1] صحیح مسلم:۱۷۱۸