کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 39
ایسے لوگوں کی گواہی کیسے قبول کروں جو نماز کو ایمان کا حصہ ہی نہیں مانتے۔‘‘ اور اسی طرح کا معاملہ امام صاحبؒ کے دوسرے شاگرد قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کو بھی درپیش آیا۔امام محمد بن خلف الوکیع کتاب’’ اخبار القضاۃ ‘‘(صفحہ ۲۶۱،ج۳) میں فرماتے ہیں: (اخبرنی جعفر بن محمد قال سمعت اسحاق بن راھویہ یقول سمعت یحییٰ بن آدم یقول رد شریک شھادۃ ابی یوسف فقیل لہ اترد شھادۃ ابی یوسف فقال الا ارد شھادتہ وھو یقول ان الصلٰوۃ لیست من الایمان۔…)[1] ’’جعفر بن محمد فرماتے ہیں کہ میں نے اسحاق بن راہویہ ؒسے سنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ میں نے یحییٰ بن آدم سے سنا کہ قاضی شریک نے ابویوسفؒ کی گواہی کو رد کردیا۔ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ میں ان کی شہادت کیوں نہ رد کروں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ نماز ایمان کا حصّہ نہیں ہے۔‘‘ اور امام حافظ ابوسعد العجلی’’تاریخ ومعرفۃ الثقات‘‘(قلمی)کے باب الکوفیین میں فرماتے ہیں: (جاء حماد بن ابی حنیفۃ الٰی شریک یشھد عندہ بشھادۃ فقال لہ شریک:الصلوۃ من الایمان ؟ فقال حمادلم یجزھذا فقال شریک لکنا نبدأ بھذا فقال نعم ھی من الایمان قال فتشھد الان۔…)[2] ’’حماد بن ابی حنفیہ رحمہ اللہ قاضی شریک کے روبرو گواہی دینے کے لئے آئے۔ قاضی شریک ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا نماز ایمان میں داخل
[1] اخبار القضاۃ امام محمد بن خلف الوکیع ،صفحہ ۲۶۱،ج۳ [2] تاریخ ومعرفۃ الثقات(قلمی)مطبوع ،ص۴۸۱