کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 37
اور بنا بریں نماز ان کے نزدیک ایمان نہیں حالانکہ کتاب وسنت میں اس کو ایمان کہا گیا ہے۔ (فی صحیح البخاری کتاب الایمان،باب الصلوٰۃ من الایمان وقول اللّٰہ تعالی{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ} [البقرہ:۱۴۳]یعنی صلٰوتکم عند البیت) [1] وفی فتح الباری(ص۳۳،ج۱):( وقع التنصیص علی ھذا التفسیر من الوجہ الذی اخرج منہ المصنف حدیث الباب فروی الطیالسی والنسائی من طریق شریک وغیرہ عن ابی اسحق عن البراء فی الحدیث المذکورفانزل اللّٰہ{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ }[البقرہ:۱۴۳] صلاتکم الی بیت المقدس) [2] ’’صحیح بخاری کتاب الایمان میں ہے۔باب اس مسئلہ پر کہ نماز ایمان میں داخل ہے،جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے کہ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘مراد یہ ہے کہ تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ ’’فتح الباری‘‘(ج ا،ص۳۳) میں اس تفسیر پر اس طریق یا سند سے صراحت ذکر کی گئی جس طریق یاسند سے مصنف( امام بخاری) نے اس باب کی حدیث روایت کی ہے۔امام طیالسی اور امام نسائی نے مذکور حدیث میں شریک اور شریک کے علاوہ دوسروں سے ابواسحاق سے براء سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں ضائع کرنے
[1] بخاری مع فتح الباری صفحہ ۳۳،ج۱ [2] فتح الباری صفحہ ۳۳،ج۱