کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 28
(ولا بی حنفیۃ قولہ تعالیٰ{وَإِنَّہُ لَفِیْ زُبُرِ الْأَوَّلِیْنَ} [الشعراء:۱۹۶]ولم یکن فیھا بھذہ اللغۃ ولھذا یجوز عند العجز الا أنہ یصیر مسیئا لمخالفۃ السنۃ المتوارثۃ ویجوز بای لسان کان سَوَائً الفارسیۃ ھو الصحیح لما تلونا والمعنی لایختلف باختلاف اللغات والخلاف فی الاعتداد ولا خلاف فی انہ لا فساد۔)[1] ’’امام ابوحنیفہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ارشاد{وَإِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْأَوَّلِیْنَ}[الشعراء]’’تحقیق وہ یعنی قرآن پہلے صحیفوں میں ہے۔‘‘کا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن ان صحیفوں میں اس لغت کے ساتھ نہیں تھا۔اسی وجہ سے عذر کی بنا پر غیر عربی میں قرآن پڑھنا جائز ہے،اگرچہ سنّتِ متواترہ کی بنا پر مکروہ ہے۔اور فارسی سمیت ہر زبان میں قرآن پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔جیسا کہ ہم نے وضاحت کی ہے۔مقصد یہ ہے کہ لغات کے اختلاف سے معنیٰ میں تغیر پیدا نہیں ہوتا۔غیر عربی میں قرآن کی تلاوت کے معتبر ہونے میں صرف اختلاف ہے۔غیر عربی میں کتاب(قرآن) کو پڑھنے سے معنیٰ فاسد نہیں ہوتا،اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ اور’’ کفایہ شرح الہدایہ‘‘ علی ھامش فتح القدیر( ص۲۰۰ج۱) میں ہے: (وصفہ بکونہ فی زبر الاولین ولم یکن القرآن بنظم فیھا لا محالۃ فتعین ان یکون بمعناہ فیھا المقرر بالفارسیۃ علی سبیل الترجمۃ مشتمل علی معناہ فیکون جائزاالحاقابہ۔)[2]
[1] ہدایہ ،صفۃ الصلوٰۃ [2] کفایہ شرح الہدایہ علی ھامش فتح القدیر ص۲۰۰ج۱