کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 20
اور امام حاکم کی’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘(صفحہ ۸۴) میں امام ابن خزیمہ سے منقول ہے: [من لم یقر بأن اللّٰه تعالٰی علٰی عرشہ قد استویٰ فوق سمٰواتہ فھو کافر بربہ یستتاب فان تاب والا ضربت عنقہ والقی علی بعض المزابل حیث لا یتأذی المسلمون والمعاھدون بنتن ریح جیفتہ وکان مالہ فیئاً لا یرثہ احد من المسلمین اذا المسلم لا یرث الکافر کما قالہ صلی اللّٰه علیہ وسلم …][1] ’’فرماتے ہیں:جو شخص آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کا اقرار نہ کرے،وہ اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔اس کو توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر توبہ کرے تو بہتر،ورنہ اس کی گردن اڑادی جائے اور اس کو گندگی کے ڈھیڑ پر پھینک دیا جائے تا کہ مسلمان اور ذمی لوگ اس کی لاش کی بدبو سے تکلیف نہ پائیں (اس کا یہ حال بطورِ نصیحت ہوگا) کوئی مسلمان اس کا وارث نہیں ہوسکتا،کیونکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’کافر کا وارث مسلمان نہیں ہوسکتا۔‘‘[2] مزید تفصیل کیلئے ہماری کتاب‘‘توحیدِ خالص‘‘دیکھنی چاہیئے۔ اور دوسری طرف علماء حنفیہ کی معتبر تفسیر جس کے مصنّف علّامہ ابو البرکات النسفی ہیں۔جنہیں مجتہد فی المذہب شمار کیا گیا ہے۔[3] موصوف اپنی تفسیر’’مدارک التنزیل وحقائق التاویل‘‘ میں ہر جگہ استویٰ کا معنیٰ استیلاء کرتے ہیں اور ایک جگہ لکھتے ہیں:
[1] ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘للحاکم،صفحہ ۸۴ [2] صحیحین وسنن اربعہ ومسنداحمد۔صحیح الجامع الصغیر:۷۶۸۵ [3] کمافی التعلقات السنیۃ علی الفوائد البہیۃ للعلامہ عبدالحئی لکھنوی،صفحہ۱۰۱