کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 13
استدلال میں بعض احادیث بھی نقل کی ہیں،اس کے بعد اپنا فیصلہ یوں صادر فرمایا ہے:
[الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسألۃ ونحن مقلدین یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ]
’’حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعیؒ(کے موقف) کو حاصل ہے اور ہم چونکہ مقلد ہیں لہٰذا ہم پر تو امام ابوحنیفہؒ کی تقلید واجب ہے۔‘‘
قارئینِ کرام! یہاں پر’’تقلیدِ جامد‘‘ کاا سلوب ملاحظہ فرمائیں،پہلے حق کی تعیین خود فرمارہے ہیں اور پھر محض تقلید کی وجہ سے خلافِ حق یعنی باطل کو اختیار کررہے ہیں۔یہ انتہائی قابلِ مذمت جمود ہے،کیونکہ پہلے حق کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ اعترافِ حق کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور حکم کچھ اور ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ کا فیصلہ اس کے برخلاف ہے۔لہٰذا ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں بلکہ اپنے امام کی مانیں گے۔
نیزاس عبارت سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایسے نزاع کے موقع پر تقلیدِ امام ضروری ہے،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یعنی حق کی پیروی کی ضرورت نہیں۔{اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ}
اب آپ انصاف سے بتایئے کہ اس قسم کی روش اللہ کی شریعت میں دخل اندازی اور اس کے حکم میں شراکت کے مترادف نہیں ؟یقیناً یہ’’ شرک فی الحکم‘‘ ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ أَحَداً}[1]
’’اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
[1] سورۂ کہف آیت:۲۶