کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 12
زیادتی ٔ ایمان کا موجب قرار دیا گیا ہے۔
6 اسی طرح وہ اعمال کو ایمان کا جز ء نہیں مانتے،بلکہ ان کے ہاں ’’ایمان صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کا نام ہے۔‘‘
یہاں ذرا سا غور کیجئے کہ جب اعمال کو وہ ایمان میں داخل ہی نہیں سمجھتے تو نماز بھی(ایک) عمل ہے،لہٰذا جب وہ نماز کو ایمان کا جزء ماننے پر تیار نہیں تو پھر(اہلحدیث کی) نماز ان کی اقتداء میں کیونکر معتبر ہوسکتی ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِپاک میں بطورِ خاص نماز کو ایمان کہا ہے۔اسی طرح قرآن واحادیث میں ترکِ نماز کو کفروشرک سے تعبیر کیا گیا ہے،تو پھر نماز کے ایمان ہونے میں کونسا امر مانع ہے؟لہٰذا جب نماز کے مسئلہ میں ان کی بنیاد ہی غلط ہے تو پھر ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا چہ معنیٰ دارد؟
قارئینِ کرام! مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ احناف کے بہت سے عقائد انتہائی انحراف واضطراب کا شکار ہیں۔لہٰذا ’’مخل فی العقیدہ‘‘ امام کی اقتداء کیسے درست ہوسکتی ہے؟
مسئلہ زیرِ بحث پر ایک اور پہلو سے بھی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ’’تقلیدِ شخصی‘‘ کی وہ صورت ہے جو ہمارے ممالک میں عمومی طور پر خاص وعام پر مسلّط ہے الّا ماشاء اللہ ۔
چنانچہ’’تقلیدِ جامد‘‘ عقیدہ کا بہت بڑا انحراف ہے اور شرک کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔جس کی صورت یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے ظاہر وبیّن احکام پر اپنے امام کے قول کو مقدم کیا جاتا ہے۔اس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل حوالہ سے ظاہر ہوتی ہے:
جامع ترمذی کے ساتھ’’التقریر للترمذی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ چھپا ہوا ہے جو مولانامحمود الحسن دیوبندی کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔اس میں ایک فقہی مسئلہ’’خیارِ مجلس‘‘ پر بحث کرتے ہوئے موصوف نے شوافع کے ساتھ اپنا اختلاف نقل کیا ہے۔پھر مذہبِ شوافع کے