کتاب: امامت کے اہل کون؟ ( دو اہم سوالوں کے جوابات ) - صفحہ 10
اس حدیث کی سب سے صریح دلالت یہی ہے کہ دل کی درستگی یعنی صحتِ اعتقاد پر،تمام بدن کی درستگی یعنی تمام اعمال کی مقبولیت موقوف ومنحصر ہے۔جبکہ دل کی خرابی یعنی فسادِ عقیدہ سے تمام جسم یعنی تمام اعمال کا فساد لازم آتا ہے۔اسی لیے قرآنِ حکیم میں منافقین کے تمام(بہ ظاہر) اعمالِ صالحہ کی نامقبولیت کو ان کے دلی اضطراب یعنی فسادِ عقیدہ پر مرتب کیا گیا ہے۔{فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ}صحتِ عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام’’حقائق شرعیہ ثابتہ‘‘ کے متعلق وہی فکر ہو جو قرآن وحدیث نے پیش کی ہے اور وہی منشا ومراد ہو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔کسی مقام پر اس سے سر مُوانحراف کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد واضح ہو کہ حنفی مذہب رکھنے والوں کے بہت سے معتقدات ایسے ہیں جو قرآن وحدیث اور فکرِ سلف(صحابہ رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ)کے خلاف ہیں۔ چناچہ زیرِ نظر رسالہ میں ان کے ایسے بہت سے عقائد کو انہی کی مستند ومتداول(مروّج) کتب کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ تمام عقائد کتاب وسنّت کے خلاف ہیں۔زیرِ مطالعہ رسالہ میں جن جن عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے ان کا خلاصہ یہ ہے: 1 حنفی مذہب رکھنے والے،صفات ِ باری تعالیٰ میں تاویل کرنا روا سمجھتے ہیں۔چنانچہ ان کی کتب کے حوالوں سے بتایا گیا ہے کہ وہ’’استواء علی العرش‘‘ کو غلبہ اور استیلاء کے معنیٰ میں لیتے ہیں۔ید اللہ(اللہ کے ہاتھ) کی تاویل قدرت سے کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ کے علو( بلندی) کو بلندے مرتبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔حالانکہ صفاتِ باری تعالیٰ پر مشتمل تمام آیاتِ قرآنی متشابہات کے دائرہ میں آتی ہیں۔جن پر بلا کیف(کیفیت کی بحث میں پڑے بغیر) ایمان لانا فرض ہے۔ایسا ایمان جو ہر قسم کی تاویل،تشبیہ یا تعطیل وغیرہ سے بالکل پاک اور مُبرّاہو۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی نشانی قراردیا اور اس فکر کے حامل افراد کو’’راسخین فی العلم‘‘