کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 85
جاگیرداری: جاگیرداری کی دوہی معروف صورتیں ہوسکتی ہیں[1]۔ 1۔ کہ کوئی شخص اپنی فاضلہ دولت سے زمین کے قطعات خرید لے اور 2۔ حکومت کسی شخص کو کسی خدمت کے صلہ میں بطور عطیہ دیدے۔ ان دونوں قسموں کے احکام الگ الگ ہیں جو درج ذیل ہیں: زرخرید زمین: کوئی شخص اپنی فاضلہ دولت سے کتنی ہی زیادہ زمین خرید لے ، اس پر عموما جاگیر کے لفظ کا اطلاق نہیں کیا جاتا اسے جائیداد ہی کہتے ہیں اگرچہ ظاہر ایسی جائیداد اور جاگیر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص جائز ذرائع سے دولت کما کر زمین خریدتا ہے تو وہ مختار ہے۔ جتنی زمین چاہے خرید لے، شریعت اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔ ایسی زمین کو مالک خود کاشت کرے، کسی دوسرے کوکاشت کے لیے دے دے یا روک رکھے[2] (2) حکومت کو اس میں داخل اندازی کا کوئی حق نہیں الا یہ کہ زمین کے بڑے بڑے ٹکڑے چند لوگوں کے قبضہ میں آجائیں جن سے مملکت کے نظم و نسق میں بگاڑ یا معاشی مفاسد کا خطرہ پیدا ہو جائے اور ایسی صورتوں میں حکومت ایسی
[1]  جاگیر کی ایک تیسری صورت مغلیہ دور میں یہ تھی کہ علاقہ کے سرداروں کوبڑی بڑی جاگیریں عطا کر دی جاتی تھیں جس کے عوض معین تعداد میں فوج اور گھوڑوں کا بوقت ضرورت مہیا کرنا ان کے ذمہ ہوتا تھا۔ ایسے سرداروں کے باقاعدہ مناصب ہوتے تھے پنچ ہزاری، دس ہزاری وغیرہ۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس سردار کے ذمہ پانچ ہزار یا دس ہزار فوج مہیا کرنا ہے۔ جاگیرداری کی یہ شکل آج کل ختم ہوچکی ہے۔ [2]  یہ بحث تفصیل سے آگے رہی ہے۔