کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 77
6۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما (بوجہ فی کس پانچ ہزار  درہم سالانہ قرابت) 7۔ مہاجر جنہوں نے فتح مکہ تک ہجرت کی  فی کس تین ہزار  درہم       سالانہ 8۔ اہل بدر کے لڑکے               فی کس دو ہزار                سالانہ 9۔ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے                      فی کس دو ہزار            درہم             سالانہ 10۔ مدینہ کے عام مقیم مسلمان         فی کس پچیس   دینار               سالانہ اہل یمن اور شام کے لوگوں کے لیے بھی بلحاظ مراتب دو ہزار، ہزار، نوسو،  پانچ سو اور تین سو کے عطایا مقرر کیے گئے تھے۔ تین سو سے کم کسی کو نہ ملتا تھا۔ مندرجہ بالا جدول سے ظاہر ہے کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کے وظائف میں قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ باقی تمام شقیں مراتب کے لحاظ سے وظائف کی کمی بیشی کو ظاہر کر رہی ہیں۔ پھر جہاں کہیں قرابت اور مراتب دونوں صفات مشترک ہو جاتیں تو وظیفہ کی تعیین میں اعتراض کی گنجائش بھی پیدا ہو جاتی بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت واضح طور پر نمایاں نہ ہوتی۔ مثلاً 1۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ ابن ابی سلمہ ( یہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے تھے۔) کا وظیفہ چار ہزار درہم مقرر  کیا تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ ابن جحش نے، جن کا وظیفہ دو ہزار مقرر کیا گیا تھا، یہ اعتراض کر دیا کہ ہمارے باپوں نے ہجرت بھی کی تھی اور جنگ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کس بنا پر عمر رضی اللہ عنہ ابن ابی سلمہ کو ہم