کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 75
دیا[1] ‘‘   (ابو داؤد ۔ کتاب الخراج والفئ والامارۃ۔ باب فی قسم الفنی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی پالیسی پر کار بند رہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس سلسلے میں مختلف رائے رکھتے تھے ۔آب رضی اللہ تعالی عنہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کو اس کی اسلامی خدمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی بنا پر وظائف دیے جائیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی کےکے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی ایک جماعت نے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے  موقف کی تائید کی کہ جن لوگوں نے اسلام کے سلسلہ میں پیش قدمی کی ہے ان کو حسب مراتب مقدم رکھا جائے ۔اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے
[1]  طبقاتی تقسیم اور اس کے اثرات کو روکنے کے لیے آپﷺ نے دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ معاشرہ کا کوئی فرد اس کی عام معاشی سطح سےبالاتر ہونے اوراپنی دولت کا اظہار ونمائش کرنے کی کوشش نہ کرے ۔چنانچہ ابوداؤد میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺکے ہمراہ جارہے تھے ۔آپﷺنے ایک گنبد دیکھا جو دوسری عمارتوں سے سر نکال رہا تھا ۔آپﷺنے پوچھا’’یہ کس کاہے ؟‘‘صحابہ ؓنے ایک انصاری کا نام لیا ۔آپ ﷺچپ ہو گئے مگر یہ بات دل میں رکھی ۔اس گنبد کے مالک نے جب آپﷺکے سامنے آکر سلام کیا تو آپ ﷺنے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا ۔آپﷺ نے کئی مرتبہ اس طرح کیا ۔یہاں تک کہ آپ ﷺکے چہرہ مبارک سےغصہ کے آثار دیکھے تو صحابہؓ نے فرمایا ’’رسول اللہ ﷺنے تیرے بلندوبالا گنبد کو دیکھا تو یہی بات آپ کو ناگوارگزری تھی ۔‘‘ چنانچہ وہ انصاری اپنے گنبد کی طرف گیا اور اس کو گراکر زمین بوس کردیا ۔اس کے بعد پھر جب آپ ﷺکا ادھر سے گزر ہوا اوروہ گنبد نظر نہ آیا تو آپﷺ نے پوچھا’’وہ گنبد کہاں گیا ؟‘‘ صحابہ نے تمام ماجرا سنایا تو آپﷺ نے فرمایا ۔’’خبردار !ہر عمارت قیامت کےدن اس کے مالک کے لیے عذاب کا سبب ہے مگر ایسی عمارت جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو ‘‘ (ابوداؤد۔بحوالہ مشکوۃ ۔ کتاب الرقاق.دوسری فصل