کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 73
36ھ؁ میں ساڑھے چوبیس لاکھ میں فروخت ہوئی۔ بالفاظ دیگربیس سال کی قلیل مدت میں زمین کی قیمت پندرہ گنا بڑھ گئی تھی۔ افراط زرگرانی پیدا کرتی ہے اور گرانی افراط زر میں مزید اضافہ کا باعث بنتی ہے پھر یہی دولت کی ریل پیل خود غرضی پیدا کرتی ، جذبہ ایثار کو فنا کرتی اور اسلام کی اعلی روحانی اقدار کو جس طرح غارت کرتی ہے۔ اسی کو سامنے رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ’’ خدا کی قسم! مجھ کو تمہاری محتاجی کا کچھ ڈر نہیں ہے بلکہ مجھ کو تویہ ڈر ہے کہ تم پر سامان زیست کر فراوانی ہوجائے اور تم دنیا کے پیچھے پڑجاؤ اور اخرت سے یوں غافل ہوجاؤ جیسے تم سے پہلے لوگ ہوئے تھے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب مایحذر.........) 2۔ دولت کی نامناسب تقسیم کی وجہ سے طبقانی تقسیم: دوسری بات جس نے مسلمانوں کی معاشیات کو دگرگوں کرنے میں موثر کردار ادا کیا وہ عطایا کی نامناسب تقسیم ہے۔ صدقات کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دو باتوں کو ملحوظ رکھا۔ کسی کی احتیاج و ضرورت اور تالیف قلوب۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں امور کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ بعض بدبختوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پالیسی پر اعتراض بھی کیا جیسا کہ قرآن مجید ہے۔ ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ﴾ (سورۃ التوبۃ:58)