کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 7
تقریظ
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے انسانیت کو جن مشکلات سے دو چار کیا ہے‘ اتنا شاید کسی اورچیز نے نہیں کیا۔ طاقت ورطبقوں کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی وجہ سے بھوکے انسانوں کا جو جم غفیر وجود میں آیا اس کو بھی‘ رد عمل کے طور پر‘ چھیننے جھپٹنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہ آیا ۔ پرولتاری انقلاب نے چھننے کا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد جب نیا نظام تعمیر کرنا شروع کیا تو اس کی بنیاد رکھنے کے لیے جبر‘ انسانی ارادے اور اختیار پر شدید قدغن لگائے بغیر کچھ بنانا ممکن نظر نہ آیا تو غریب کو مال و زر کے بعد اختیار اورفکر آزادی کی عظیم تر دولت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ جب پنڈولم کی حرکت واپس دوسری انتہا کے لیے شروع ہو گئی تو پرولتاری انقلاب کی جگہ معاشی استحصال‘ لوٹ مار‘ بیروزگاری اورافلاس کی فرمانروائی شروع ہو گئی ۔ ایک سپر پاور کا انہدام دنیا میں طاقت کے شدید عدم توازن پر منتج ہوا۔ اس کے نتیجے میں آج استحصالیوں نے گلوبلائزیشن کے ذریعے ساری دنیا کو معاشی غلامی میں جکڑنے کوشش شروع کر دی ہیں اور انسانیت کا مستقبل تاریک تر نظر آتا ہے۔ غریب افراد ہی نہیں‘ غریب اقوام تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔
کیا ان دونوں انتہاؤں کے درمیان تقسیم دولت کا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو اعتدال اور توازن پر مبنی ہو؟ یقیناَ یہ نظام ہو سکتا ہے جس میں دولت کی ملکیت نہیں بلکہ دولت کی ہوس کو ختم کیا گیا ہو۔ دوسری طرف چھیننے اور لوٹنے کی بجائے عطا کرنے اور ایثار کرنے کا طریقہ اپنایا گیا ہو۔
اسلام کا معاشی نظام انہیں دو اصولوں پر قائم ہے ۔ مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس معتدل معاشی نظام کے بنیادی اصولوں پر خوبصورت بحث کی