کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 27
نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے جس دن وہ خزانہ آتش ِ دوزخ میں تپایا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے (اور کہا جائے گا: ) یہ ہے جسے تم اپنے لیے خزانہ بنا رہے تھے، سو اب تم اس خزانے کا مزہ چکھو۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات سے بہت پریشان ہوئے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ تو اپنی ضرورت سے زائد بچا کر رکھتا ہی ہے اور جو چیز بھی ضرورت سے زائد پاس موجود ہو، وہی کنز ہوتا ہے جس پر ایسی  سخت وعید نازل ہوئی ہے۔ جب یہ چرچا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بھی چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اسی لیے تو مقرر فرمائی  ہے کہ باقی مال پاک ہوجائے (یعنی زکاۃ کے بعد مال کنز کی تعریف میں نہیں آتا) (تفسیر ابن کثیر، زیر ِ آیت محولہ بالا۔ بحوالہ مسند احمد) اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک مختصر سی روایت صحیح بخاری میں اس طرح آئی ہے: «عن خالد بن أسلم قال: خرجنا مع عبدالله بن عمر، فقال: هذا قبل أن تنزل الزكاة، فلما أنزلت جعلها الله طهرا للأموال»(بخاری، کتاب التفسیر، زیر ِ آیت محولہ بالا)