کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 25
باب نمبر:2اسلام میں فاضلہ دولت ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا ایک مسلمان اپنے پاس فاضلہ دولت رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ بالفاظ دیگر یہ سوال یوں ہوگا کہ آیا اسلام میں دولت مند بننے یا بنے رہنے کا جواز ہے؟ اس سوال کا جواب مندرجہ بالا تمہیدی تصریحات کی روشنی میں نہایت آسانی سے یوں دیا جاسکتا ہے کہ جہاں تک جواز کے فتویٰ کا تعلق ہے تو یہ جواز ضرور موجود ہے اگرچہ فضائل اعمال کے لحاظ سے یہ کمتر درجہ ہے۔ موجودہ دور میں اس مسئلہ نے ایک اختلافی اور پیچیدہ سی صورت اختیار کرلی ہے اور اس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اشتراکیت سے متاثر حضرات فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا جائز ہی نہیں ،گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے اس موقف کا زور وشور سے پرچار کر رہے ہیں ۔ وہ اس سلسلہ میں حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کا موقف پیش کرتے ہیں جو فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا حرام سمجھتے تھے۔ دوسری وجہ ایسے مسلمانوں کا طرزعمل ہے جو فاضلہ دولت کے جواز سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔دولت کی محبت ان کے دلوں میں گھر چکی ہے ۔انہوں نے فرضی زکوۃ کے علاوہ ترغیبی صدقات پر عمل کرنا یکسر ترک کردیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ فرضی زکوٰۃ کے علاوہ کچھ دینا جرم سمجھتے ہیں تو یہ بھی بےجانہ ہوگا بلکہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو زکوٰۃ تک بھی ادا کرنے کی روادار نہیں۔حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے نوافل کے سلسلہ میں آج کا مسلمان بھی بہت حد تک دلچسپی رکھتا ہے۔