کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 23
ہمت اور کوشش کے مطابق خرچ کرکے اسی مناسبت سے تقرب الہٰی اور بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔
صدقہ کی آخری حد:
پھر جس طرح شریعت نے نماز کے نوافل اور نفلی روزے کی حد مقرر کردی ہے اسی طرح صدقہ کی بھی حد مقرر کردی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(خیرالصدقة ماکان عن ظہر غنی) (بخاری۔کتاب الوصایا باب من بعد وصیة)
ترجمہ:’’ صدقہ اتنا ہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہو۔‘‘
گویا انسان صدقہ جو ضرورت سے زائد ہونے کے بجائے خود کو بھی ضرورت میں مبتلا کردے یا محتاج بنادے ایسا صدقہ کرنا نیکی کا کام نہیں بلکہ معصیت رسول ہے لہٰذا گناہ میں شمار ہوگا[1]۔
مندرجہ بالا دونوں مثالوں میں زکوۃ کی مثال تو ہمارے حسب حال اور
[1] ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انبیاء کے لیے کچھ خاص احکام ہوتے ہیں جن کے لیے امت مکلف نہیں ہوتی۔ حسب حال مثالیں یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺنماز تہجد فرض تھی۔ امت پر فرض نہیں ہے،آپﷺ وصلی روزے رکھتے تھے۔یعنی روزہ کھولے بغیر ہی دن کا روزہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح کئی کئی دن متواتر آپ افطار نہ فرماتے۔ لیکن ایسے روزے سے آپ نے امت کو منع فرمایا دیا۔ انبیاء کاترکہ بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ صدقہ ہوجاتا ہےجبکہ دوسروں کا ترکہ تقسیم ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح عام مسلمانوں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اس حد تک ہی صدقہ کر سکتے ہیں کہ بعد میں محتاج نہ ہو جائیں۔ لیکن آپ اس سے مستثنی تھے اور قرض اٹھا کرصدقہ دیا کرتے تھے ۔ امت پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے۔ لیکن آپ کے پاس کبھی اتنا مال جمع نہ ہوا کہ زکوۃ ادا کرنے کی نوبت آئے۔آپﷺصدقہ کے اس کم تردرجہ کو کیونکر گوارا فرما سکتے تھے؟