کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 22
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سے لوگ پوچھتے  ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیجیے کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہے۔‘‘ اسی چیز کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أن رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ قَالَ فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ» (مسلم، كتاب اللقطة، باب الضيفاة) ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس فالتو سواری ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس سوا ری نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد زاد راہ ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس زاد رہ نہیں ہے۔‘‘ راوی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی ایک ایک قسم کا ایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ ہم میں سے کسی کا بھی اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ گویا شریعت نے انفاق فی سبیل اللہ کا کم سے کم درجہ بتایا ہے اور وہ ہے فرضی زکوٰۃ کی ادائیگی جو کفر اور اسلام کی حد پر واقع ہے  اور زیادہ سے زیادہ درجہ بھی بتا دیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دے۔ ان دونوں درجوں کے درمیان بہت وسیع میدان ہے جس میں ہر مسلمان اپنی