کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 21
صرف اس لحاظ سے ہوتے ہیں کہ ان میں صدقہ کی مقدار یا کوئی خاص وقت متعین نہیں ہوتا۔یعنی کوئی شخص جب چاہے اور جتنا چاہے اور جسے چاہے دے سکتا ہے ۔ ایسے صدقات کی ادائیگی کے بھی وہی فوائد ہیں جو نماز کے نوافل کے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر فرائض میں کمی رہ گئی ہو تو ایسے صدقات سے پوری کردی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ یہی صدقات تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے صدقات کی ادائیگی صرف اہل ثروت کے لیے  ہی ضروری نہیں بلکہ تنگدست حضرات کو بھی ان کے لیے بہت ترغیب دی گئی ہے ۔لہٰذا تنگدست حضرات کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ ان کے لیے بھی بخل کے مرض سے نجات اور نفس کا تزکیہ ایسے ہی ضروری ہے جیسے صاحب حیثیت لوگوں کے لیے ضروری ہے ۔ ایسے صدقات کا میدان بھی بہت وسیع ہے۔ غریبوں کو قرض حسنہ دینا قرضہ معاف کردینا یا کسی قرض تلے دبے ہوئے کا قرض اتار کر اسے اس بوجھ سے نجات دلانا، بیواؤں،یتیموں کا خیال رکھنا، اپنی قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں سے غریب محتاج لوگوں کی دست گیری کرنا،دینی اداروں سے تعاون اور مساجد کی آبادی وتعمیر میں حصہ لینا، خیراتی اور باہمی تعاون کے اداروں میں شریک ہونا۔ غرضیکہ ان صدقات کا میدان فرضی صدقات کے میدان سے بہت زیادہ وسیع ہے اور ایسے صدقات کی حد جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہ ہے ۔ صدقات کا بلند ترین درجہ: مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ:219)