کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 18
پوچھا جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا اتنی عبادت کو کم سمجھا اور کہنے لگے’’کہاں ہم اور کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف کئے جاچکے (یعنی ہمیں ان سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) پھر ایک نے کہا’’ میں رات بھر قیام کیا کروں گا اور سوؤں گا نہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا’’ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہ چھوڑوں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا ’’ میں نے کبھی نکاح نہیں کروں گا اور عورتوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہوں گ۔‘‘ وہ یہ باتیں کرکے گئے ہی تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ انہیں اس گفتگو کا حال معلوم ہوا تو انہیں بلایا اور فرمایا: «انتم الذين قلتم كذا وكذا؟ اما والله اني لاخشاكم لله واتقاكم لكني اصوم وافطر واصلي وارقد واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني»(بخاری۔ کتاب النکاح ۔باب الترغیب فی النکاح) ترجمہ:’’ کیا تم لوگوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں۔؟ خدا کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں رات کو قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کو مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نوافل بھی اسی حد تک تقرب الہٰی کا ذریعہ بن سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔ جو کوئی اس حد سے آگے بڑھے گا وہ ثواب حاصل کرنے کی بجائے الٹا معصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتکب