کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 16
لہٰذا جہاں تک ہو سکے ان سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ترغیبات کی حد نوافل جتنے بھی بجا لائے جائیں تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتے ہیں تاہم ان کی بھی ایک حد ہے جو شریعت نے مقرر کر دی ہے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص[1] کا آپ رضی اللہ عنہ کے والد نے نکاح کیا تو آپ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی سے چنداں دلچسپی نہ رکھتے اور ساری رات نماز میں گزار دیتے اور دن کو روزہ رکھ لیا کرتے۔ ان کی اس بات سے آپ رضی اللہ عنہ کے والد بھی پریشان تھے اور بیوی بھی۔ آخر باپ نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شے شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ عمرو کو بلایا اور فرمایا: ’’میں نے سنا ہے کہ تم رات بھر قیام کرتے ہوئے اور سوتے نہیں اور ہمیشہ دن کو روزے رکھتے ہو چھوڑتے نہیں۔‘‘ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کرو کہ رات کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے، تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا بھی تجھ
[1]  یہی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے کی اس وقت اجازت دی تھی جبکہ دوسروں کو نہ تھی۔ احادیث کے اس دفتر کا نام آپ نے صادقہ رکھا تھا جو تقریباً ایک ہزار احادیث پر مشتمل تھا۔ آپ جب بوڑھے ہو گئے تو ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی۔ اس وقت آپ افسوس اور حسرت سے کہا کرتے تھے کہ کاش! جو رخصت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے وہ میں قبول کر لیتا۔ مگر چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کر چکے تھے لہٰذا اس کا حل یہ نکالا کہ آٹھ دس دن مسلسل افطار کرتے پھر جب طاقت بحال ہو جاتی تو اتنے ہی دن روزہ رکھ لیتے۔