کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 142
							
						
								ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اگر کارخانہ داراور جاگیر دار اپنے چند ملازمین کی محنت سے خود سردردی کرکے فائدہ اٹھا لے تو وہ استحصال کا مجرم ہے۔ مگر کسی سوشلسٹ ملک میں سرکاری پارٹی بلاشرکت غیرے یہی کام انجام دیتی ہے اور تمام ملک کی استحصالی دولت کھنچ کراس کے پاس چلی آتی ہے۔ اب اسے اختیار ہے کہ اسے انسانیت کی فلاح پر خرچ کرے یا ہلاکت پر اور دوسرے ممالک میں سازشوں کے جال بچھانے پر۔ پھر اس سرکاری پارٹی کا سربراہ بدترین قسم کا آمر ہوتا ہے جو اپنی ناک پر مکھی بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہاں نہ جلسے جلوس کی گنجائش ہے نہ احتجاج کی۔ ہڑتال، مظاہرے یا تحریری تنقید سب کچھ ممنوع ہے۔ ایسے سب لوگ بغاوت کے مجرم ہیں اور ان کی سزا موت ہے۔ ایسے ممالک میں جاسوسی کا نظام اتنا متحرک ہوتا ہے کہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے سوشلسٹ حضرات چین کی مساوات کی مثال بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سوشلزم کی فیوض و برکات کے سبب چین نے کتنے قلیل عرصے میں کتنی شاندار ترقی کی ہے۔ مگر یہ مثال دیتے وقت وہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ چینی لوگ اپنے قول وفعل میں کم از کم مخلص تو ہیں۔ ان کے سربراہ ماؤزے تنگ اور پارٹی کے دوسرے ارکان نےخود تمام تعیشات کو خیرباد کہہ کر سادگی اختیار کی۔ پھر عوام ان کے پیچھے چلنے لگے۔ انہوں نے محنت کے ساتھ سائنسی علوم وفنون حاصل کیے۔ قومی خزانہ پر بار بننے کے بجائے قوم کی مشترکہ کوششوں نے مملکت کو مضبوط بنا دیا اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے گئے۔ وہ منافق نہیں تھے۔ خلوص نیت سے دنیا کے پیچھے پڑے اور وہ ان کو مل گئی۔ حسب ارشاد باری تعالی:
						    	
						    