کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 140
کے پرچم کے لیے اپنے سروں کے دوپٹے دیئے تھے، آج پیپلزپارٹی کی حکومت میں ان کی عزت تک نہیں رہی۔ قتل کے مقدمات کا فیصلہ تھانوں میں ہوتا ہے ایک ایک تھانہ کی آمدنی بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ (نوائے وقت16جون 74ء؁ صفحہ آخر کالم6) یہ حکومتی پارٹی کے اپنے رکن کی شہادت ہے۔ اسے ایک بار پھر پڑھیے کہ ان جملوں میں کن بڑی بڑی خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اب اگر کوئی بعد کا مورخ اس دور کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اس دور کے مظالم کا پلڑ یقیناً بھاری اترے گا اور یہ وہ دور ہے جب کہ پوری تندہی سے سوشلزم کے لیے راہ ہموار کی جارہی تھی۔ ہمارے یہ سوشلسٹ حضرات جذبات کی رومیں بعض دفعہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام سوشلسٹ تھے(نعوذباللہ)بلاشبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تمام سرمایۂ تجارت غریبوں کی دستگیری، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی اور بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنے پر صرف کردیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیانت دار اور کامیاب تاجر تھے۔ سرمایہ کافی تھا۔ مگر یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرکے’’ الفقر فخری‘‘ کو ترجیح دی۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ آپ کے ہاں ایک ایک ماہ تک آگ نہ جلتی تھی اور فقط دوکالی چیزوں (مٹکے کا پانی اور ادنیٰ قسم کی کھجور) پر گزر اوقات کر لیا کرتے تھے۔ وہاں انہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی ایک دوسری شہادت ملتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات سخت بے قرار تھے۔ بار بار بیقراری اور بے چینی کی حالت میں بستر استراحت سے اٹھ کی بیٹھ جاتے۔