کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 138
بھی مادی ترقی کی دوڑ میں ہمارا کیا سنوارتی ہے جبکہ رہٹی کپڑے اور مکان کے مسائل حدود و قیود کے بغیر بھی سوشلزم کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں تو پھر اسلام جیسے فرسودہ اور تکلیف دہ نطام کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن ہم چونکہ مسلمانوں کی اولاد ہیں اور اتنی جرات ہم میں نہین کے ہم اسلام سے دستبرداری کا اعلان کر سکیں۔ اس کے لیے چاروناچار زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں اسلام کا نام لینے پر مجبور ہیں۔ لہذا ہم نے نعرہ لگایا کہ: اسلام ہمارا مذہب ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے دوسرے الفاط میں ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات رسماً اور تبرکاً سمجھتے ہیں۔ ورنہ عملی طور پر موجودہ دور میں سوشلزم کو اسلامی اقتصادی نظام سے بہتر اور مغرب کے طرزِ جمہوریت کو اسلام کے سیاسی شورائی نظام سے برتر سمجھتے ہیں۔ جب تک ان پیوندکاریوں سے کام نہ لیا جائے۔ اسلام ناقص اور موجود حالات میں کام دینے کےقابل نہیں ہے۔ یہ اسلام بس گھر اور مسجد تک ہی کافی ہے۔ اسلام اور سوشلزم دونوں اصلاحِ حال کے لیے بالکل الگ الگ طرز اختیار کرتے ہیں۔ اسلام جب معاشی تفاوت کو دور کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے تو معاشرہ میں احساسِ مروت، ہمدردی، اخوت اور ایثار جیسے اخلاق جمیلہ ابھر آتے ہیں لیکن جہاں سوشلزم کی آمد آمد ہو وہاں خودغرضی، لوٹ کھسوٹ،غضب و غبن،ماردھاڑ،ڈاکہ،چوریاں،جلاو گھراو جیسے اخلاق رذیلہ کو حرکت ملتی ہے۔ پہلے گرانی و قحط کی راہ ہموار کی جاتی ہے پھر خونی انقلاب کے ذریعہ سوشلسٹ نظام مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اس فلسفہ حیات مین دینداری نام کی کوئی شے موجود نہیں کیونکہ یہ مادی نظام