کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 136
جان آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن اس عالم میں بھی ہر ایک کو اپنے دوسرے بھائی کا خیال اپنی نسبت سے زیادہ رہا۔    طبقاتی تفاوت کو دور کرنے کے لیے اسلام نے کئی طریقے اختیار کیے ہیں۔ بڑے بڑے عوامل ' زكاة اور میراث جیسے فرائض ہیں لیکن ان کا تعلق محض انفرادی نہیں بلکہ اسلامی حکومت سے بھی ہے۔ جبکہ زیر نظر مضموں انفرادی حثیت رکھتا ہے اور نتائج کے لحاظ سے نہایت مفید اور موثر ! جہاں معاشرے میں ایثار اور ایک دوسرے کا احساس ہوگا وہاں مروت ' ہمدردی' تشکر اور اخوت جیسے اخلاق جلیلہ کو فروغ ملے گا اور قومی یک جہتی کی راہ ہموار ہو کر ملک و ملت بنیان مرصوص کی مثال بن جائے گا۔ لیکن جب اسلامی اقدار کی ایک ایک کرکے مٹی پلید کی جانے لگی تو سادگی اور کفایت شعباری کی جگہ میعار زندگی کو بلند کرنے کا جنوں ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں کلبلانے لگا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ معاشرہ میں جب ایک برائی جنم لیتی ہے تو ایک اچھائی اٹھا لی جاتی ہے۔ امیروں نے اپنا میعار زندگی بلند کیا کہ طعیش کا سامان آہستہ آہستہ ضروریات زندگی میں شامل کر لیا اور پھر اشیائے ضروریات بڑھیا سے بڑھیا معیار کی حاصل کی جانے لگیں۔ اخراجات کے اس اضافے کو انہوں نے غریبوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ کر استحصال سے سمگلنگ' ملاوٹ اور ہیرہ پھیری سے پورا کرنا شروع کیا۔ ایک دوسرا طبقہ جو دفتری کارروائی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہاں رشوت کا بازار گرم ہوا' غنڈہ عناصر نے لوٹ کھسوٹ' چوری اور ڈاکہ کو اپنا شعار بنا لیا۔ اب بھلا غریب طبقہ اس تقابل و تفاخر کی دوڑ میں کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ وہاں یہ کام پوری بددیانتی' ن دہندگی اور کئی طریقہ کے مکروفریب سے