کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 134
چاہتا۔" کیا یہ چند ایک واقعات اسلامی زندگی کا پہلو نہیں؟ یہ پہلو آج کل کہاں نظر آتا ہے، اور اگر نظر نہیں آتا تو کیا واقعی یہ یکسر فراموش کر دیئے جانے کے قابل ہے؟ کیا یہ طرز عمل اسلام نے صرف امراء اور احکام کے لئے مخصوص رکھا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ "الناس علی دین ملوکھم" کے مصداق عوام اپنےامراء کی دیکھا دیکھی اور امراء، مندرجہ بالا امثلہ کی روشنی میں، سادگی اور کفایت شعاری کو اپنا لیں تو معاشرہ سے بے شمار برائیاں مثلاً چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ ماراور بددیانتی وغیرہ ختم ہو سکتی ہیں۔ تاہم انفرادی طور پر بھی کفایت شعاری کے فوائد کچھ کم نہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص اپنی آمدنی کے لحاظ سے یا اس سے بڑھ کر اپنی خوراک یا رہائش وغیرہ پرنمائش کے لئے خرچ کرتا ہے تو کیا اس سے نچلے طبقے کے لوگ "ریس" کا شکار ہو کر یہی کچھ کرنے کی کوشش نہ کریں گے جبکہ انسان کی فطرت ہی یہ ہے کہ "لا یسئم الانسان من دعاء الخیر" (انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا) لہٰذا ہر شخص سامان تعیش کے حصول کے لئے ہرجائز و ناجائز حربہ وغیرہ ضرور استعمال کرگا جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں ایسی ہی برائیوں کا رواج پاجانا ناگزیر ہے جن کا آج ہم شکار ہیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں ایک واقعہ ایسے مالدار اور بخیل شخص کے متعلق بھی ملتا ہے جو دوسروں کے تو کیا آتا، اپنی ذات پر کچھ خرچ نہ کرتا تھا۔ اس کی ظاہری ہیئت دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ خیرات کا سب سے مستحق یہی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہیں خدانے دیا