کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 131
کرو۔‘‘ غور فرمائیے، آخر یہ سب کفایت شعاریاں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر کیوں لازم قرار دے رہے ہیں؟ اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے توایک پردہ پڑا ہو ادیکھ کر فوراً واپس چلے گئے اور فرمایا کہ’’ انسان درو دیوار کی نسبت کپڑے کے زیادہ حقدار ہیں۔ حلفائے راشدہ کے دورسے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو اپنے گزارہ کے لیے بیت المال میں سے ایک متوسط درجہ کے مزدور کا روزینہ یعنی چاردرہم کی رقم لینی منظوری کی۔ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے اس قلیل رقم میں کچھ بچت کرکے حلوہ پکالیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس حلوہ کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ اور جب بیوی نے صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا روزینہ کم کر دیا......... یہ اس شخص کا حال ہے جو خلافت سے پہلے کپڑے کا تاجر تھا اور آپ کا شمار متمول لوگوں میں ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سادگی سب سے بڑھ کر ہے۔ قیصر روم کا سفیر آپ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لیے ےآیا لوگوں سے پوچھا ، تمہارے خلیفہ کہاں ہیں؟بتایا گیا کہ بیرون شہر فلاں درخت کے نیچے آرام فرما ہیں۔ دیکھا تو ایک معمولی آدمی ننگی زمین پر لیٹا سو رہا ہے۔ سمجھا کہ شاید لوگوں نے مجھے غلط پتہ دیا ہے ۔ دوبارہ جا کر پوچھا، اس دفعہ بھی اسے وہی خبر دی گئی۔ وہ اسی درخت کی طرف واپس آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیدار پایا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ سے اس کی