کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 130
سے بھرا ہوا تکیہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ جسم مبارک پر صف کے نشان پڑگئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس منظر سے آب دیدہ ہوگئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) قیصرو کسرٰی تو اللہ کے باغی ہو کر عیش کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہو کربھی اتنی پر مشقت زندگی بسر کریں۔ کیا ہم آپ کے لئے بھی قیصرو کسرٰی کا سا سامانِ راحت نہ مہیا کردیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "الفقر فخری" کہہ کر اس تجویز کو مسترد کردیا۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جبکہ مدینہ میں اسلامی سٹیٹ قائم ہو چکی تھی، عرب کاکافی حصہ حلقہ بگوش اسلام ہو چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں نظام معیشت  بھی کافی مستحکم اور مضبوط ہو چکا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ کر غنیمت سے حاصل ہونے والے غلام مسلمانوں میں تقسیم فرمارہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہاں تشریف لاتی ہیں اور اپنے والد محترم کو (چکی پیس پیس کر اور پانی ڈھو ڈھو کر گھسے ہوئے ہاتھ دکھا کر) عرض کرتی ہیں کہ مالِ غنیمت میں سے سب کو حصہ مل رہاہے تو ایک غلام مجھے بھی عنایت فرمادیجیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا اور فرمایا کہ گھر پر میرا انتظآر کرنا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے فراغت پا کر اپنی صاحبزادی کے گھر پہنچے اور فرمایا: "بیٹی کیا میں تمہیں ایسا وظیفہ نہ بتاؤں جو غلام حاصل کرنے سے بہتر ہے۔ تم 33بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر رات کو سوتے وقت پڑھ لیا