کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 129
سمجھاتے تھے مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ بالآخر خدائی احکام نے اس تنازعہ کا دوٹوک فیصلہ کردیا۔ اور یہ آیات نازل ہوئیں: ﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ۔ وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴾(الاحزاب:28-29) ترجمہ: ’’ کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج(مطہرات) سے فرما دیجیے کہ اگر تم دینا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقہ سے رخصت کردوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دارآخرت کی طالب ہو تو جان لوکہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔‘‘ اب ازواج کو یہ اختیار دیا گیا کہ چاہے تو سامان دنیا لے لیں پھر انہیں مناسب طریقہ پر ان کے گھروں کو روانہ کردیا جائے گا اور چاہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ان کے ساتھ سادگی سے زندگی بسر کرلیں.... غور فرمائیے، کیا ازواج مطہرات،امہات المومنین کا یہ مطالبہ ناجائز تھا؟ خصوصا جبکہ اکثر مسلمان آسودہ حال ہوچکے تھے۔ اسی سلسلہ میں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانہ میں تشریف فرماتھے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تشریف لائے ،کیا دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی صف پر لیٹے ہوئے ہیں اور انہی پتوں